چودھری پرویز الٰہی نے وزیراعظم پرویز اشرف سے کہا ہے کہ لوڈشیڈنگ کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔ ایک مضبوط اتحادی کے طور پر انہیں زور دینا چاہئے۔ اس سے پہلے بھی وہ زور دیتے رہے ہیں مگر شاید حکمران ڈھٹائی میں بہت زور آور ہو چکے ہیں۔ ڈھٹائی میں کوئی ان کے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکتا۔ جب پرویز اشرف پانی و بجلی کے وزیر شذیر تھے تو لوڈشیڈنگ کی قیامت غریب لوگوں پر توڑنے کا ”کارنامہ“ انہی کا ہے۔ ”وزیراعظم گیلانی کی کابینہ کے خودمختار وزیر کے طور پر چار سال میں لوڈشیڈنگ بڑھتی رہی ہے۔ پٹرولیم کے وزیر ڈاکٹر عاصم کی دن رات کی ”محنت“ سے پٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے۔ بجلی و پانی کے مسائل کیلئے جتنا پرویز اشرف جانتے تھے۔ اتنا ہی ڈاکٹر عاصم پٹرولیم کی وزارت کے معاملات و مسائل کیلئے جانتے ہیں۔ یہی حال دوسرے وزرا کا ہے۔
مشیر داخلہ کے اس ملک میں افراتفری مار دھاڑ جلاو گھیراو قتل و غارت دہشت گردی بدامنی میں جو اضافہ ہوا ہے تو رحمن ملک سینئر مشیر داخلہ ہو گئے ہیں۔ ان کی رکنیت منسوخ ہوئی تو انعام کے طور پر انہیں فارغ نہیں بیٹھنے دیا گیا۔ مشیر داخلہ اور اب سینئر مشیر داخلہ بنا دیا گیا ہے۔ لوگوں کو یاد ہے کہ جب ابھی دہری شہریت کے باوجود رحمن ملک مشیر داخلہ تھے تو وزیر داخلہ کوئی نہیں تھا۔ جب وہ غیر قانونی سنیٹر بن گئے تو انہیں وزیر داخلہ بنا دیا گیا اور کوئی مشیر داخلہ نہیں تھا۔ یہ تو صدر زرداری پر منحصر ہے کہ وہ کس کو کتنے اختیار دیتے ہیں۔ ”وزیراعظم“ گیلانی کو چار سال تک اس خوش فہمی اور غلط فہمی میں الجھائے رکھا کہ وہ بااختیار ہیں کہ نہیں اور کتنے بااختیار ہیں۔ ان کی بے اختیاریاں کہاں تک ہیں۔ ان پر صدر زرداری نے کبھی اعتبار نہ کیا۔ رحمن ملک کو اس کے اوپر مقرر کئے رکھا۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ رہتا اور یہ وزیراعظم گیلانی کو بھی پتہ تھا کہ رحمن ملک کی ڈیوٹی ان پر لگی ہوئی ہے اور ان کی مخبری ہو رہی ہے۔ وزیراعظم پرویز اشرف پر صدر زرداری کو اعتبار ہے۔ اس کے باوجود رحمن ملک کی ڈیوٹی ختم نہیں کی گئی۔ رحمن ملک ان کے ساتھ ساتھ بلکہ شانہ بشانہ ہیں۔ یہ وزیراعظم کے عہدے کی بدقسمتی ہے کہ جو بھی ہو گا وہ ناقابل اعتبار ہو گا۔ اسی لئے خود صدر زرداری وزیراعظم نہیں بنے۔ کوئی جرنیل مارشل لا لگانے کے بعد‘ وزیراعظم نہیں بنا کچھ دیر کیلئے جنرل مشرف کو صدر رفیق تارڑ کا سہارا لینا پڑا۔ اتنا ہی سہارا نوازشریف کو بھی لینا پڑا۔ اس کا اشارہ کلثوم نواز نے میرے ساتھ گفتگو میں کیا تھا۔ جنرل مشرف نے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ اختیار کیا۔ جبکہ وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے جو کہ ”وزیراعظم“ گیلانی نہیں تھے اور اب وزیراعظم پرویز اشرف بھی نہیں ہیں۔ پرویز اشرف کو راجہ رینٹل کہتے ہیں۔ ایک کارٹون میں وہ صدر زرداری سے رینٹ پر کچھ اختیار دینے کی بھیک مانگ رہے ہیں۔
پرویز اشرف بجلی و پانی کے وزیر تھے تو بڑی مشکل سے لوڈشیڈنگ کو مستقل بنیادوں پر قائم کیا تھا اور وزیر بنتے ہی کالا باغ ڈیم نہ بنانے کا اعلان کیا۔ کالا باغ کسی حکومت نے نہیں بنانا تھا مگر یہ اعلان نہ کیا۔ یہ بات بھی صدر زرداری نے پرویز اشرف کی قسمت میں لکھ دی تھی۔ پھر سپریم کورٹ سے رینٹل پاور پلانٹس کے معاملے میں ملزم قرار دیئے جانے کے بعد یہ وزارت ان کے پاس رہ نہیں سکتی تھی۔ وہ آئی ٹی میں آ گئے مگر کوشش یہی رہی کہ لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ اب پرویز اشرف کو وزیراعظم اس لئے تو نہیں بنایا گیا کہ وہ لوڈشیڈنگ دیں ۔ انہیں کچھ دنوں کے بعد خط نہ لکھنے کے معاملے میں پھنسا دیا جائے گا اور لوڈشیڈنگ ہوتی رہے گی۔
چودھری پرویز الٰہی خود بجلی و پانی کی وزارت اپنے پاس رکھوا لیتے تو پھر امکان تھا مگر وہ سیاستدان ہیں۔ وہ بجلی و پانی کے وزیر نہ بنے اور نہ امیر مقام کو بننے دیا۔ اس میں جو کرپشن ہے وہ کہیں اور نہیں۔ جنرل مشرف کے وقت کا امیر مقام کو بڑا تجربہ ہے۔ وہ خفا ہو کر نوازشریف کے پاس چلے گئے ہیں۔ ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ نوازشریف بھی انہیں پانی و بجلی کا وزیر نہیں بنائیں گے۔ راجہ پرویز اشرف پانی و بجلی کی وزارت سے ہی مہاراجہ بنے ہیں۔ وزارت عظمیٰ میں جو اندھیر مچایا وہ پرویز اشرف لوڈشیڈنگ کے ذریعے بھی نہیں مچا سکے۔
فیصل صالح حیات اپنی پارٹی کی سپورٹ سے راجہ پرویز اشرف کے خلاف سپریم کورٹ میں گئے۔ میں نے پہلے بھی لکھا۔ اس سے بڑی دلیری کی بات کوئی نہیں اور اس سے بھی بڑی دلیری ہے کہ پیپلز پارٹی کے اتحادی ہونے کے بعد اور وزیر بننے کے باوجود فیصل صالح حیات ثابت قدم رہے اور پرویز اشرف کے خلاف سپریم کورٹ میں ڈٹ کر کھڑے رہے۔ اس کی مثال پاکستان کی حکومتی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اب انہوں نے ووٹ پرویز اشرف کو چودھری شجاعت کے کہنے پر دیا ہے۔ یہ پارٹی ڈسپلن کی بات تھی۔ ہمیں کچھ محسوس تو ہوا۔ مگر انہوں نے وزیراعظم پرویز اشرف کی کابینہ میں وزیر بننے سے انکار کر دیا۔ وہ تقریب حلف وفاداری میں بھی نہیں گئے۔ یہ بھی بڑے حوصلے کی بات ہے۔
نوازشریف کے چھ ساتھیوں نے جنرل مشرف سے حلف لیا۔ چودھری نثار سینئر وزیر تھے۔ ان کی خفیہ سرگرمیوں کی وجہ سے اسی حکومت کا قائد حزب اختلاف بنا دیا گیا۔ خواجہ آصف احسن اقبال تہمینہ دولتانہ خواجہ سعد رفیق نے سیاست صرف پارٹی لیڈر کے حکم کی تعمیل کو سمجھا ہوا ہے۔ مگر ایک باضمیر سچے لیڈر اور باغی سیاستدان جاوید ہاشمی نے ایسے شخص سے حلف لینے سے انکار کر دیا جس نے دوتہائی اکثریت والی وزیراعظم نوازشریف کی حکومت توڑی اور جاوید ہاشمی کو نوازشریف کی حمایت کی پاداش میں جیل بھجوا دیا۔ آج جاوید ہاشمی عمران خان کے ساتھی ہیں مگر چودھری نثار نوازشریف کے دل کے قریب ہیں جن کے مشورے پر جنرل مشرف کو آرمی چیف بنایا گیا تھا۔ کچھ دن پہلے انہوں نے کہا ہے کہ جنرل مشرف کو آرمی چیف بنائے جانے کا فیصلہ بالکل ٹھیک تھا۔ تو کیا بالواسطہ طور پر فیصل صالح حیات مسلم لیگ ق کا جاوید ہاشمی ہے۔ امیر مقام کی طرح انہوں نے ق لیگ نہیں چھوڑی۔ بلکہ نہ چاہتے ہوئے بھی پارٹی ڈسپلن کیلئے پرویز اشرف کو ووٹ دیا۔ مگر وزیر بننے سے انکار کر دیا۔ ووٹ سے انہیں کوئی فائدہ نہ ہوا۔ وزارت تو بہت فائدہ مند چیز ہے۔ پارٹی ڈسپلن اٹھارویں ترمیم کا لایا ہوا ہے جس میں صوبہ سرحد کا نام خیبر پختون خوا رکھا گیا۔ اور اس پر نوازشریف کے بھی دستخط ہیں۔ کالا باغ ڈیم کیلئے بھی وہ موقف اختیار کر سکتے تھے۔ تو پھر لوڈشیڈنگ کا عذاب کیسے آتا؟
فائدہ تو وزارت عظمیٰ میں بھی بہت ہے مگر صدر زرداری کی پیشکش کے باوجود چودھری پرویز الٰہی نے انکار کر دیا۔ حالانکہ ان کی منزل مقصود یہی ہے۔ وہ سیاستدان ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں وزارت عظمیٰ سوائے ناکامی اور بدنامی کے کچھ نہیں۔ وزیراعظم پرویز اشرف کو یہ مشورہ ضرور دیا ہے کہ سب سے پہلے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا جائے۔ اس کیلئے اب چودھری صاحبان سے بھی لوگ سوال کریں گے۔
وزیراعظم پرویز اشرف چودھری صاحبان کے گھر گئے۔ ان کے ساتھ جانے والے سب لوگوں کو روٹی شوٹی کھلائی گئی۔ روٹی شوٹی کھلانا چودھری شجاعت کی روایت ہے۔ اب سب پاکستانیوں کو روٹی شوٹی کھلانا ہو گی۔
مشیر داخلہ کے اس ملک میں افراتفری مار دھاڑ جلاو گھیراو قتل و غارت دہشت گردی بدامنی میں جو اضافہ ہوا ہے تو رحمن ملک سینئر مشیر داخلہ ہو گئے ہیں۔ ان کی رکنیت منسوخ ہوئی تو انعام کے طور پر انہیں فارغ نہیں بیٹھنے دیا گیا۔ مشیر داخلہ اور اب سینئر مشیر داخلہ بنا دیا گیا ہے۔ لوگوں کو یاد ہے کہ جب ابھی دہری شہریت کے باوجود رحمن ملک مشیر داخلہ تھے تو وزیر داخلہ کوئی نہیں تھا۔ جب وہ غیر قانونی سنیٹر بن گئے تو انہیں وزیر داخلہ بنا دیا گیا اور کوئی مشیر داخلہ نہیں تھا۔ یہ تو صدر زرداری پر منحصر ہے کہ وہ کس کو کتنے اختیار دیتے ہیں۔ ”وزیراعظم“ گیلانی کو چار سال تک اس خوش فہمی اور غلط فہمی میں الجھائے رکھا کہ وہ بااختیار ہیں کہ نہیں اور کتنے بااختیار ہیں۔ ان کی بے اختیاریاں کہاں تک ہیں۔ ان پر صدر زرداری نے کبھی اعتبار نہ کیا۔ رحمن ملک کو اس کے اوپر مقرر کئے رکھا۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ رہتا اور یہ وزیراعظم گیلانی کو بھی پتہ تھا کہ رحمن ملک کی ڈیوٹی ان پر لگی ہوئی ہے اور ان کی مخبری ہو رہی ہے۔ وزیراعظم پرویز اشرف پر صدر زرداری کو اعتبار ہے۔ اس کے باوجود رحمن ملک کی ڈیوٹی ختم نہیں کی گئی۔ رحمن ملک ان کے ساتھ ساتھ بلکہ شانہ بشانہ ہیں۔ یہ وزیراعظم کے عہدے کی بدقسمتی ہے کہ جو بھی ہو گا وہ ناقابل اعتبار ہو گا۔ اسی لئے خود صدر زرداری وزیراعظم نہیں بنے۔ کوئی جرنیل مارشل لا لگانے کے بعد‘ وزیراعظم نہیں بنا کچھ دیر کیلئے جنرل مشرف کو صدر رفیق تارڑ کا سہارا لینا پڑا۔ اتنا ہی سہارا نوازشریف کو بھی لینا پڑا۔ اس کا اشارہ کلثوم نواز نے میرے ساتھ گفتگو میں کیا تھا۔ جنرل مشرف نے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ اختیار کیا۔ جبکہ وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے جو کہ ”وزیراعظم“ گیلانی نہیں تھے اور اب وزیراعظم پرویز اشرف بھی نہیں ہیں۔ پرویز اشرف کو راجہ رینٹل کہتے ہیں۔ ایک کارٹون میں وہ صدر زرداری سے رینٹ پر کچھ اختیار دینے کی بھیک مانگ رہے ہیں۔
پرویز اشرف بجلی و پانی کے وزیر تھے تو بڑی مشکل سے لوڈشیڈنگ کو مستقل بنیادوں پر قائم کیا تھا اور وزیر بنتے ہی کالا باغ ڈیم نہ بنانے کا اعلان کیا۔ کالا باغ کسی حکومت نے نہیں بنانا تھا مگر یہ اعلان نہ کیا۔ یہ بات بھی صدر زرداری نے پرویز اشرف کی قسمت میں لکھ دی تھی۔ پھر سپریم کورٹ سے رینٹل پاور پلانٹس کے معاملے میں ملزم قرار دیئے جانے کے بعد یہ وزارت ان کے پاس رہ نہیں سکتی تھی۔ وہ آئی ٹی میں آ گئے مگر کوشش یہی رہی کہ لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ اب پرویز اشرف کو وزیراعظم اس لئے تو نہیں بنایا گیا کہ وہ لوڈشیڈنگ دیں ۔ انہیں کچھ دنوں کے بعد خط نہ لکھنے کے معاملے میں پھنسا دیا جائے گا اور لوڈشیڈنگ ہوتی رہے گی۔
چودھری پرویز الٰہی خود بجلی و پانی کی وزارت اپنے پاس رکھوا لیتے تو پھر امکان تھا مگر وہ سیاستدان ہیں۔ وہ بجلی و پانی کے وزیر نہ بنے اور نہ امیر مقام کو بننے دیا۔ اس میں جو کرپشن ہے وہ کہیں اور نہیں۔ جنرل مشرف کے وقت کا امیر مقام کو بڑا تجربہ ہے۔ وہ خفا ہو کر نوازشریف کے پاس چلے گئے ہیں۔ ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ نوازشریف بھی انہیں پانی و بجلی کا وزیر نہیں بنائیں گے۔ راجہ پرویز اشرف پانی و بجلی کی وزارت سے ہی مہاراجہ بنے ہیں۔ وزارت عظمیٰ میں جو اندھیر مچایا وہ پرویز اشرف لوڈشیڈنگ کے ذریعے بھی نہیں مچا سکے۔
فیصل صالح حیات اپنی پارٹی کی سپورٹ سے راجہ پرویز اشرف کے خلاف سپریم کورٹ میں گئے۔ میں نے پہلے بھی لکھا۔ اس سے بڑی دلیری کی بات کوئی نہیں اور اس سے بھی بڑی دلیری ہے کہ پیپلز پارٹی کے اتحادی ہونے کے بعد اور وزیر بننے کے باوجود فیصل صالح حیات ثابت قدم رہے اور پرویز اشرف کے خلاف سپریم کورٹ میں ڈٹ کر کھڑے رہے۔ اس کی مثال پاکستان کی حکومتی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اب انہوں نے ووٹ پرویز اشرف کو چودھری شجاعت کے کہنے پر دیا ہے۔ یہ پارٹی ڈسپلن کی بات تھی۔ ہمیں کچھ محسوس تو ہوا۔ مگر انہوں نے وزیراعظم پرویز اشرف کی کابینہ میں وزیر بننے سے انکار کر دیا۔ وہ تقریب حلف وفاداری میں بھی نہیں گئے۔ یہ بھی بڑے حوصلے کی بات ہے۔
نوازشریف کے چھ ساتھیوں نے جنرل مشرف سے حلف لیا۔ چودھری نثار سینئر وزیر تھے۔ ان کی خفیہ سرگرمیوں کی وجہ سے اسی حکومت کا قائد حزب اختلاف بنا دیا گیا۔ خواجہ آصف احسن اقبال تہمینہ دولتانہ خواجہ سعد رفیق نے سیاست صرف پارٹی لیڈر کے حکم کی تعمیل کو سمجھا ہوا ہے۔ مگر ایک باضمیر سچے لیڈر اور باغی سیاستدان جاوید ہاشمی نے ایسے شخص سے حلف لینے سے انکار کر دیا جس نے دوتہائی اکثریت والی وزیراعظم نوازشریف کی حکومت توڑی اور جاوید ہاشمی کو نوازشریف کی حمایت کی پاداش میں جیل بھجوا دیا۔ آج جاوید ہاشمی عمران خان کے ساتھی ہیں مگر چودھری نثار نوازشریف کے دل کے قریب ہیں جن کے مشورے پر جنرل مشرف کو آرمی چیف بنایا گیا تھا۔ کچھ دن پہلے انہوں نے کہا ہے کہ جنرل مشرف کو آرمی چیف بنائے جانے کا فیصلہ بالکل ٹھیک تھا۔ تو کیا بالواسطہ طور پر فیصل صالح حیات مسلم لیگ ق کا جاوید ہاشمی ہے۔ امیر مقام کی طرح انہوں نے ق لیگ نہیں چھوڑی۔ بلکہ نہ چاہتے ہوئے بھی پارٹی ڈسپلن کیلئے پرویز اشرف کو ووٹ دیا۔ مگر وزیر بننے سے انکار کر دیا۔ ووٹ سے انہیں کوئی فائدہ نہ ہوا۔ وزارت تو بہت فائدہ مند چیز ہے۔ پارٹی ڈسپلن اٹھارویں ترمیم کا لایا ہوا ہے جس میں صوبہ سرحد کا نام خیبر پختون خوا رکھا گیا۔ اور اس پر نوازشریف کے بھی دستخط ہیں۔ کالا باغ ڈیم کیلئے بھی وہ موقف اختیار کر سکتے تھے۔ تو پھر لوڈشیڈنگ کا عذاب کیسے آتا؟
فائدہ تو وزارت عظمیٰ میں بھی بہت ہے مگر صدر زرداری کی پیشکش کے باوجود چودھری پرویز الٰہی نے انکار کر دیا۔ حالانکہ ان کی منزل مقصود یہی ہے۔ وہ سیاستدان ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں وزارت عظمیٰ سوائے ناکامی اور بدنامی کے کچھ نہیں۔ وزیراعظم پرویز اشرف کو یہ مشورہ ضرور دیا ہے کہ سب سے پہلے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا جائے۔ اس کیلئے اب چودھری صاحبان سے بھی لوگ سوال کریں گے۔
وزیراعظم پرویز اشرف چودھری صاحبان کے گھر گئے۔ ان کے ساتھ جانے والے سب لوگوں کو روٹی شوٹی کھلائی گئی۔ روٹی شوٹی کھلانا چودھری شجاعت کی روایت ہے۔ اب سب پاکستانیوں کو روٹی شوٹی کھلانا ہو گی۔