لاہور (رفیعہ ناہید اکرام سے) ڈی سی او لاہور نورالامین کی طرف سے ”دارالامان کو جیل نہیں حقیقی معنوں میں دارالامان نظر آنا چاہئے“ کے احکامات کے باوجود 50 خواتین کی گنجائش رکھنے والے صوبائی دارالحکومت کے ”اکلوتے“ دارالامان میں 5 گنا زیادہ خواتین اور بچوں کی موجودگی کے باعث انتظامیہ کو مشکلات کا سامنا ہے اور پناہ گزینوں کو شدید گرمی اور حبس کے موسم میں بنیادی ضروریات و سہولیات فراہم کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق محکمہ سوشل ویلفیئر کے زیر انتظام بند روڈ پر واقع دارالامان میں یکم جنوری 2012ءسے 25 جون 2012ءتک کسی بھی مہینے میں پناہ گزینوں کی تعداد 195 سے کم نہیں رہی جبکہ ماہ مئی میں یہ تعداد بڑھ کر 262 تک جا پہنچی جس سے انتظامیہ کے لئے مقیم بچوں اور خواتین کو سکیورٹی، رہائش، خوراک و دیگر ضروریات وسہولیات کی فراہمی کے سلسلے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ واضح رہے کہ سال 2012ءکے پہلے 6 ماہ کے دوران 1263 خواتین اور بچے صوبائی دارالحکومت کے واحد دارالامان میں پناہ حاصل کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان میں 998 خواتین اور 265 بچے شامل ہیں۔ دریں اثناءسپرنٹنڈنٹ دارالامان آمنہ بٹ نے نوائے وقت کو بتایا کہ شدید مالی مشکلات، گھریلو تشدد اور پسند کی شادی کے باعث خواتین بچوں سمیت گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو رہی ہیں۔ حکومت طویل عرصے سے دارالامان میں مقیم خواتین کی کونسلنگ کا بندوبست کرے تاکہ وہ گھروں کو واپس جانے پر آمادہ ہو سکیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024