ایسا لگتا ہے کہ وہ سحر جس کا فیض صاحب کو آزادی کے فوراً بعد انتظار تھا وہ بالآخر آزاد عدلیہ کے روپ میں 60 برس بعد 2012ءمیں عوام کی پکار سن کر قانون کی حکمرانی قائم کرنے کیلئے اپنے جرات مندانہ فیصلوں کے ذریعے پاکستان کے بام و در کو اس توقع کے ساتھ دستک دے رہی ہے کہ اب بانی قوم کی تمناﺅں کی تکمیل کیلئے سلطانیہ جمہور کی راہ ہموار کی جا سکے گی۔ اس کی پہلی مثال قانون کی حکمرانی کے اس دھماکہ سے کی گئی جس کے نتیجہ میں پاکستان کی عدالتی اور آئینی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیراعظم پاکستان کو توہین عدالت کے مقدمہ میں سزا سنائی گئی اور جب تک راجہ پرویز اشرف این آر او کے بارے میں سپریم کورٹ کی تسلی و تشفی کا مناسب اہتمام نہیں کرتے اس امر کا خوف بدستور قائم ہے کہ اپنے پیشرو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے راجہ پرویز اشرف کا انجام بھی کہیں ویسا ہی نہ ہو۔ جمہوریت کے پرامن تسلسل کو برقرار رکھنے کیلئے اعلی عدلیہ سے ٹکراﺅ کے علاوہ اور بھی کئی راستے موجود ہیں جن پر حکومتی قیادت کو غور لازم ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک تازہ ترین فیصلہ میں پیپلز پارٹی کے سینئر ترین راہنما جناب امین فہیم کے خلاف ضروری قانونی کارروائی کا جو حکم جاری کیا گیا ہے وہ حکمران جماعت کیلئے بالعموم اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کیلئے بالخصوص ایک واضح پیغام کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو یہ ہے کہ آزاد عدلیہ قانون کی حکمرانی قائم کرنے کیلئے کسی بڑے سے بڑے حکومتی عہدیدار کو کوئی ناجائز رعایت دینے کیلئے اس لئے تیار نہیں ہے تاکہ ریاست کے ہر فرد پر یہ واضح ہو جائے کہ قانون کی نظر میں ہر پاکستانی شہری اسلامی مساوات کے مطابق برابر درجہ رکھتا ہے۔ محمود و ایاز میں کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ ایک عجیب حسن اتفاق ہے کہ راجہ پرویز اشرف کے وزیراعظم کا قلمدان سنبھالنے کے ساتھ ہی دوسرے روز لاہور ہائیکورٹ میں صدر مملکت عزت مآب آصف علی زرداری کے دو عہدے رکھنے یعنی صدر مملکت کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کا عہدہ بھی عدالتی حکم کے باوجود برقرار رکھنے پر دائر توہین عدالت کی درخواست چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عمر عطا بندیال کی عدالت میں زیر سماعت آ گئی۔ یہ ایک معمولی مقدمہ نہ تھا اور صدر مملکت پر توہین عدالت کا الزام وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کے الزام سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے اس لئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ پر نہ صرف پورے پاکستان بلکہ پوری دنیا کی نظریں مرکوز ہو جانا ایک لازمی امر تھا لیکن چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے چند فقروں میں اس پیچیدہ کیس کے مختلف پہلوﺅں کے بارے میں وہ سب کچھ کہہ دیا جو ایک شارٹ آرڈر میں کہا جا سکتا ہے۔ قانونی ماہرین بہتر سمجھتے ہیں لیکن قانون اور آئین کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ چیف جسٹس نے سمندر کو کوزہ میں بند کرتے ہوئے اختصار کا کلاسک نمونہ پیش کیا ہے۔
اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس بندیال نے قرار دیا کہ عدالت کے فل بینچ نے اپنے فیصلے میں توقع ظاہر کی تھی کے صدر محترم ایک عہدہ چھوڑ دیںگے۔ مگر اس پر عمل نہیں ہوا۔ چیف جسٹس کا یہ فقرہ اپنے اندر ایک پنہاں زلزلہ خیز بم پھٹنے کی خبر رکھتا ہے۔ ”ایک عہدہ نہ چھوڑنا بادی النظر میں توہین عدالت ہے“ لیکن خوفناک بم کی پوشیدہ اہمیت کے پیش نظر چیف جسٹس نے یہ سنگین اور پیچیدہ کیس لارجر بینچ کو بھیج دیا۔ ساتھ ہی بم پر برف ڈالنے کیلئے یہ ریمارکس دینا ضروری سمجھا کہ صدر کا عہدہ قابل احترام ہے اس لئے انہیں نوٹس جاری نہیں کر سکتے۔ مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ صدر مملکت آئین و قانون کے پابند نہ ہوں اس لئے صدر مملکت کے پرنسپل سیکرٹری سے وضاحت طلب کرتے ہوئے انہی کے ذریعے محترم صدر مملکت آصف علی زرداری کو نوٹس جاری کرنے کے احکام جاری کر دیئے۔
مندرجہ بالا مثالوں سے جوڈیشل ایکٹوازم کے بارے میں پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کا انداز فکر اور قانون کی بالادستی قائم کرنے میں مصمم عزم اور کمٹمنٹ کے بارے میں ارباب اقتدار حکومت کی مشینری کے اعلیٰ ترین عہدیدار اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بلاامتیاز تمام سیاستدانوں مل مالکان اور کارخانہ داروں کے علاوہ ارب پتی مالدار بزنس ٹائیکون سب پر واضح ہو جانا چاہئے کہ آزاد عدلیہ نے اپنے ادارے کو ماضی کی راہوں سے نکال کر عدلیہ کے وقار کو ایک ایسا ولولہ تازہ عطا کیا ہے جس کے تحت وہ قانون کی بالادستی اور ہر شہری کو برابری کی سطح پر انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے نہ کسی سازش کو کامیاب ہونے دیں گے اور نہ کسی قربانی سے دریغ کریں گے۔
اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس بندیال نے قرار دیا کہ عدالت کے فل بینچ نے اپنے فیصلے میں توقع ظاہر کی تھی کے صدر محترم ایک عہدہ چھوڑ دیںگے۔ مگر اس پر عمل نہیں ہوا۔ چیف جسٹس کا یہ فقرہ اپنے اندر ایک پنہاں زلزلہ خیز بم پھٹنے کی خبر رکھتا ہے۔ ”ایک عہدہ نہ چھوڑنا بادی النظر میں توہین عدالت ہے“ لیکن خوفناک بم کی پوشیدہ اہمیت کے پیش نظر چیف جسٹس نے یہ سنگین اور پیچیدہ کیس لارجر بینچ کو بھیج دیا۔ ساتھ ہی بم پر برف ڈالنے کیلئے یہ ریمارکس دینا ضروری سمجھا کہ صدر کا عہدہ قابل احترام ہے اس لئے انہیں نوٹس جاری نہیں کر سکتے۔ مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ صدر مملکت آئین و قانون کے پابند نہ ہوں اس لئے صدر مملکت کے پرنسپل سیکرٹری سے وضاحت طلب کرتے ہوئے انہی کے ذریعے محترم صدر مملکت آصف علی زرداری کو نوٹس جاری کرنے کے احکام جاری کر دیئے۔
مندرجہ بالا مثالوں سے جوڈیشل ایکٹوازم کے بارے میں پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کا انداز فکر اور قانون کی بالادستی قائم کرنے میں مصمم عزم اور کمٹمنٹ کے بارے میں ارباب اقتدار حکومت کی مشینری کے اعلیٰ ترین عہدیدار اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بلاامتیاز تمام سیاستدانوں مل مالکان اور کارخانہ داروں کے علاوہ ارب پتی مالدار بزنس ٹائیکون سب پر واضح ہو جانا چاہئے کہ آزاد عدلیہ نے اپنے ادارے کو ماضی کی راہوں سے نکال کر عدلیہ کے وقار کو ایک ایسا ولولہ تازہ عطا کیا ہے جس کے تحت وہ قانون کی بالادستی اور ہر شہری کو برابری کی سطح پر انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے نہ کسی سازش کو کامیاب ہونے دیں گے اور نہ کسی قربانی سے دریغ کریں گے۔