عزت مآب مرشد پاک سید یوسف رضا گیلانی کا ”سنہری دور“ اختتام پذیر ہوا۔ جس تزک و احتشام سے وہ مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہوئے تھے، اس سے یکسر متضاد طریقے سے انہیں یوں بے دخل ہوتے دیکھا کہ حضرت آدمؑ کا خلد سے نکلنا یاد آ گیا جن کی خاطر وہ یوسف رضا گیلانی سے یوسف بے کارواں بنے، انہوں نے تو داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے ہی تھے، بقیہ سلطنت میں کوئی آنکھ اشکبار اور نہ کوئی ذی روح سوگوار نظر آیا، یہی وہ انجام تھا کہ جس سے انہیں ہر دانشور اور صاحب عقل آدمی خبردار کر رہا تھا کہ حضور والا! اقتدار سدا نہیں رہتا مگر حکمرانوں کے فیصلے سدا زندہ رہتے ہیں۔ دور اقتدار کے مصاحبین بڑے طوطا چشم ہوتے ہیں اور یہ اقتدار کا سورج غروب ہونے کے بعد کبھی نظر نہیں آتے۔ آپ بھی ریاست سے کیا گیا عہد نبھائیے! مگر انہوں نے فرد سے وفاداری کو مقدم جانا اور ایک فرد کے بیرون ملک چھ سو کروڑ روپے کو تحفظ دینے کے لئے آئین کی بالا دستی کی رٹ لگاتے رہے نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ سیاستدان ہر پانچ سال کی نااہلیت کرکٹر پر پانچ سال کی پابندی کے مترادف ہوتی ہے کہ جب مدت سزا ختم ہوتی ہے تو میدان اور ایوان انہیں بھول چکا ہوتا ہے۔ آپ لکھ لیجئے کہ پانچ سال بعد گیلانی صاحب قصہ پارنیہ بن چکے ہوں گے۔
اب تک اقتدار کی بے ثباتی کا یقین تو گیلانی صاحب کو آچکا ہو گا کیونکہ ان کی رخصتی کے فوراً بعد مصاحبین نئے وزیر اعظم کی درگاہ پر جھکے ہوتے ہیں۔ اے این ایف ان کی رخصتی کے فوراً بعد ان کے صاحبزادے کے وارنٹ گرفتاری جاری کرچکی ہے جس کے باعث مخدوم شہاب الدین کی ممکنہ وزارت عظمیٰ بھی ڈوب گئی اور تازہ خبر کے مطابق گیلانی صاحب کو ایوان صدر میں چار کمرے کا رہائشی مکان فراہم کیا گیا ہے۔ اوپر تلے یہ واقعات گیلانی صاحب کو آسمان اقتدار سے واپس زمین پر لانے میں کافی ممدو معاون ثابت ہوں گے۔ انہیں اپنا سو گاڑیوں کا پروٹوکول، 80لاکھ کے تین سوٹ اور حاکمانہ کروفر کو بھلانے میں وقت تو لگے گا مگر جتنی جلدی بھول جائیں اتنا ہی ان کے حق میں بہتر ہے۔ مجھے بخوبی یاد ہے کہ 2008ءکے انتخابی گوشواروں میں یوسف رضا گیلانی صاحب نے خود کو گاڑی اور مکان سے محروم قرار دیا تھا۔ میں تب بھی حیران تھا کہ گیلانی صاحب نے اپنے ملتان کے خاندانی دولت کدے کا ذکر کیوں نہیں کیا! کیا ان کے والد علمدار گیلانی مرحوم نے انہیں پشیتنی مکان کی وراثت سے محروم رکھا یا انہوں نے یہ جدی پشتی کوٹھی وراثت میں ملنے کے بعد بیچ کھائی! میری معلومات کے مطابق ملتان کی رہائش گاہ تاحال ان کے زیر استعمال ہے، علاوہ ازیں ڈیفنس لاہور میں واقع ان کی عظیم الشان رہائش گاہ بھی عقیدت مندوں کی نظروں سے پوشیدہ نہیں، کاروں کی قطار جو کہ ان کی ملتان اور لاہور کی رہائش گاہوں میں نظر آتی ہے، نجانے وہ کس کی ملکیت ہے، اگر مریدین نے عقیدتاً اور تحفتاً نذر کر رکھی ہیں تو اللہ ایسے مریدین سب کو عنایت فرمائے اور اگر خود خریدی گئی ہیں تو ضرور چیک کیا جانا چاہیے کہ جناب سابق وزیر اعظم کے اثاثے گزشتہ ساڑھے چار سال میں اس قدر کس طرح بڑھ گئے۔وہ جیل میں تھے تو اپنی قیمتی گھڑی بیچ کر بچوں کی فیس ادا کی۔ 2008ءالیکشن کے اخراجات پورے کرنے کیلئے ملتان کی آدھی کوٹھی برائے سیل تھی۔
دوسری جانب پی پی پی نے قربانی کا دوسرا بکرا پیش کر دیا ہے۔ مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ شہید عوام ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت کو کوئی اجلے دامن اور غیر متنازعہ شخصیت کا مالک میسر نہ آ سکا جس کے سر پر اب اقتدار کا ہما بٹھایا گیا ہے ان کی ڈگری کا کیس عدالت میں زیر سماعت ہے جبکہ ان کی ”رینٹل پاور“ معرکے سے تمام دنیا واقف ہے۔ ان کی خوش انتظامی اہل پاکستان وزارت بجلی و پانی میں دیکھ چکے ہیں۔ صدر زرداری صاحب کے طرز حکمرانی کو سمجھنا ہر خاص و عام کے بس کی بات نہیں۔ آپ خود دیکھ لیجئے جو صاحب محترم بے نظیر بھٹو کی حفاظت یقینی نہ بنا سکے انہیں وزارت داخلہ سونپ کر پوری قوم کی حفاظت کا ذمہ دار بنا دیا جن سے وزارت بجلی و پانی نہ چلائی جا سکی ان کو وزارت عظمیٰ بخش دی جو اپنا دفاع نہیں کر سکتے۔ انہیں وزیر دفاع بنا دیا۔ کسی نے سچ کہا تھا کہ پاکستان شخصی آمریت سے شہنشاہیت کی طرف گامزن ہے۔
علم الاعداد اور علم الاسماءکی روشنی میں چیف جسٹس کے اختیارات کی کمی یا اداروں کے ٹکراﺅ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ نئے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کا شخصی نمبر اور قسمت کا نمبر بلحاظ تاریخ پیدائش 8ہے، 8نمبر والے کا تخت ہوتا ہے یا تختہ، تخت مل چکا ہے، تختہ کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔
اب تک اقتدار کی بے ثباتی کا یقین تو گیلانی صاحب کو آچکا ہو گا کیونکہ ان کی رخصتی کے فوراً بعد مصاحبین نئے وزیر اعظم کی درگاہ پر جھکے ہوتے ہیں۔ اے این ایف ان کی رخصتی کے فوراً بعد ان کے صاحبزادے کے وارنٹ گرفتاری جاری کرچکی ہے جس کے باعث مخدوم شہاب الدین کی ممکنہ وزارت عظمیٰ بھی ڈوب گئی اور تازہ خبر کے مطابق گیلانی صاحب کو ایوان صدر میں چار کمرے کا رہائشی مکان فراہم کیا گیا ہے۔ اوپر تلے یہ واقعات گیلانی صاحب کو آسمان اقتدار سے واپس زمین پر لانے میں کافی ممدو معاون ثابت ہوں گے۔ انہیں اپنا سو گاڑیوں کا پروٹوکول، 80لاکھ کے تین سوٹ اور حاکمانہ کروفر کو بھلانے میں وقت تو لگے گا مگر جتنی جلدی بھول جائیں اتنا ہی ان کے حق میں بہتر ہے۔ مجھے بخوبی یاد ہے کہ 2008ءکے انتخابی گوشواروں میں یوسف رضا گیلانی صاحب نے خود کو گاڑی اور مکان سے محروم قرار دیا تھا۔ میں تب بھی حیران تھا کہ گیلانی صاحب نے اپنے ملتان کے خاندانی دولت کدے کا ذکر کیوں نہیں کیا! کیا ان کے والد علمدار گیلانی مرحوم نے انہیں پشیتنی مکان کی وراثت سے محروم رکھا یا انہوں نے یہ جدی پشتی کوٹھی وراثت میں ملنے کے بعد بیچ کھائی! میری معلومات کے مطابق ملتان کی رہائش گاہ تاحال ان کے زیر استعمال ہے، علاوہ ازیں ڈیفنس لاہور میں واقع ان کی عظیم الشان رہائش گاہ بھی عقیدت مندوں کی نظروں سے پوشیدہ نہیں، کاروں کی قطار جو کہ ان کی ملتان اور لاہور کی رہائش گاہوں میں نظر آتی ہے، نجانے وہ کس کی ملکیت ہے، اگر مریدین نے عقیدتاً اور تحفتاً نذر کر رکھی ہیں تو اللہ ایسے مریدین سب کو عنایت فرمائے اور اگر خود خریدی گئی ہیں تو ضرور چیک کیا جانا چاہیے کہ جناب سابق وزیر اعظم کے اثاثے گزشتہ ساڑھے چار سال میں اس قدر کس طرح بڑھ گئے۔وہ جیل میں تھے تو اپنی قیمتی گھڑی بیچ کر بچوں کی فیس ادا کی۔ 2008ءالیکشن کے اخراجات پورے کرنے کیلئے ملتان کی آدھی کوٹھی برائے سیل تھی۔
دوسری جانب پی پی پی نے قربانی کا دوسرا بکرا پیش کر دیا ہے۔ مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ شہید عوام ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت کو کوئی اجلے دامن اور غیر متنازعہ شخصیت کا مالک میسر نہ آ سکا جس کے سر پر اب اقتدار کا ہما بٹھایا گیا ہے ان کی ڈگری کا کیس عدالت میں زیر سماعت ہے جبکہ ان کی ”رینٹل پاور“ معرکے سے تمام دنیا واقف ہے۔ ان کی خوش انتظامی اہل پاکستان وزارت بجلی و پانی میں دیکھ چکے ہیں۔ صدر زرداری صاحب کے طرز حکمرانی کو سمجھنا ہر خاص و عام کے بس کی بات نہیں۔ آپ خود دیکھ لیجئے جو صاحب محترم بے نظیر بھٹو کی حفاظت یقینی نہ بنا سکے انہیں وزارت داخلہ سونپ کر پوری قوم کی حفاظت کا ذمہ دار بنا دیا جن سے وزارت بجلی و پانی نہ چلائی جا سکی ان کو وزارت عظمیٰ بخش دی جو اپنا دفاع نہیں کر سکتے۔ انہیں وزیر دفاع بنا دیا۔ کسی نے سچ کہا تھا کہ پاکستان شخصی آمریت سے شہنشاہیت کی طرف گامزن ہے۔
علم الاعداد اور علم الاسماءکی روشنی میں چیف جسٹس کے اختیارات کی کمی یا اداروں کے ٹکراﺅ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ نئے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کا شخصی نمبر اور قسمت کا نمبر بلحاظ تاریخ پیدائش 8ہے، 8نمبر والے کا تخت ہوتا ہے یا تختہ، تخت مل چکا ہے، تختہ کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔