ساجد حسین ملک
سپریم کورٹ کی طرف سے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو نا اہل قرار دینے اور الیکشن کمیشن کی طرف سے سید یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کے بعد باقی معاملات و مسائل کسی حد تک پس منظر میں چلے گئے ہیں لیکن ارسلان افتخار سکینڈل ایسا نہیں ہے کہ جسکو آسانی سے نظر انداز کیا جاسکے ۔
سپریم کورٹ کے جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل دو رکنی بینچ نے اگرچہ ارسلان افتخار از خود نوٹس کیس کو نمٹاتے ہوئے فیصلہ دیا ہے کہ اٹارنی جنرل قانون کو حرکت میں لائیں اور ارسلان افتخار ، سلمان اور ریاض ملک کےخلاف قانون کے تحت سخت سے سخت تادیبی کاروائی کریں لیکن از خود نوٹس کی سماعت کے دوران اور بعد ازاں حالات و واقعات اور معاملات و مسائل کے جو نئے رخ اور پہلو اور تہ در تہ سازش کی جو کڑیاں سامنے آئی ہیں ان سے اگرچہ بہت سارے کردار بے نقاب ہوگئے ہیں۔ کئی چہروں سے پارسائی اور معصومیت کے لبادے اتر گئے ہیں لیکن پھر بھی ضروری ہے کہ معروضی حالات و واقعات کو سامنے رکھ کر پوشیدہ اور عیاں حقائق کو سامنے لانے کی سعی کی جائے۔
ملک ریاض حسین کا نام پنڈی کے باسیوں کےلئے نیا نہیں ۔ بحریہ ٹاﺅن کے منصوبے نے جس طرح دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کی ہے یہ سب آنکھوں کے سامنے کی بات ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ بحریہ ٹاﺅن کے فیز 1تا6بشمول سفاری ولاز اور فیز8,7اور 9جن علاقوں،رقبوں اور زمینوں میں آباد اور Developکئے گئے ہیں اور کئے جارہے ہیں ان علاقوں اور زمینوں کو دیکھنا اور انکے قریب سے یا ان میں سے گزرنا آئے روز کی بات ہے ۔ میں اکثر اپنے گاﺅں چونترہ سے جو اڈیالہ روڈ کے آخری سرے پر پنڈی کے جنوب مغرب میں پینتیس چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اتوار کی شام کو واپس پنڈی آتا ہو ں تو اڈیالہ جیل سے کچھ پرے (پنڈی سے تقریباً پندرہ بیس کلومیٹر دور) دریائے سواں کے اس پار دور دور تک پھیلی جگمگاتی روشنیوں کا ایک جہاں آباد دیکھتا ہوں۔
یہ DHAفیز 1سے ملحقہ بحریہ ٹاﺅن کے فیز8,7 اور9کے علاقے ہیں جو بہت تیزی سے ڈویلپ اور آباد ہورہے ہیں۔ دن کی روشنی میں اونچی نیچی زمینوں ، ٹیلوں، کسیوں، کھائیوں اور کھڈو کو ہموار کر کے دور دور تک پھیلی سڑکوں، پانی کی اونچی ٹینکیوں اور سبزے کے قطعات کو بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔
ملک ریاض حسین کی لا محدود اور بے پناہ دولت کا راز یہی بنجر اور غیر آباد زمینیں ہیں جو انہوں نے چھوٹے بڑے لینڈ مافیاز کی مدد سے اونے پونے داموں خریدیں یا محکمہ مال اور مقامی انتظامیہ کے نچلے درجے سے لیکر اوپر کے درجے تک کے اہلکاروں اور عہدےداروں کی مدد سے کوڑیوں کے مول ہتھیائیں اور پھر انکو Developکر کے بہترین اور مثالی رہائشی سکیموں کی شکل دی اورکروڑوںاربوں روپے کمائے۔
راقم کو اچھی طرح یاد ہے کہ دس بارہ سال قبل جب بحریہ ٹاﺅن کے فیز 8,7اور9کی منصوبہ بندی کی جارہی تھی اور اولپنڈی کے جنوب مشرق میں دریائے سواں کے پار سواں کیمپ سے آگے زمین حاصل کی جارہی تھی تو مورگاہ ، کوٹھہ کلاں،ڈھوک قریشی ، بھنبھٹ ،کلنٹ، گوہڑہ گوجراں، گوہڑہ لوہارں، پنڈ جھاٹلہ، موہڑہ گولڑہ ، موہڑہ ہاشو، ڈھوک کالا خان ، ڈھوک قاضی، تخت پڑی، اور روات وغیرہ کے چھوٹے بڑے دیہات و قصبات میں ہر طرف زمینوں کی اونے پونے داموں خریداری کی لوٹ سیل لگی اور بہت سارے پراپرٹی ایجنٹ اور سرمایہ کارسادہ لوح دیہاتیوں سے انتہائی کم قیمت پر زمینوں کے سودے کر کے آگے بحریہ ٹاﺅن سے منافع کما رہے تھے۔ (جاری)
سپریم کورٹ کی طرف سے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو نا اہل قرار دینے اور الیکشن کمیشن کی طرف سے سید یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کے بعد باقی معاملات و مسائل کسی حد تک پس منظر میں چلے گئے ہیں لیکن ارسلان افتخار سکینڈل ایسا نہیں ہے کہ جسکو آسانی سے نظر انداز کیا جاسکے ۔
سپریم کورٹ کے جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل دو رکنی بینچ نے اگرچہ ارسلان افتخار از خود نوٹس کیس کو نمٹاتے ہوئے فیصلہ دیا ہے کہ اٹارنی جنرل قانون کو حرکت میں لائیں اور ارسلان افتخار ، سلمان اور ریاض ملک کےخلاف قانون کے تحت سخت سے سخت تادیبی کاروائی کریں لیکن از خود نوٹس کی سماعت کے دوران اور بعد ازاں حالات و واقعات اور معاملات و مسائل کے جو نئے رخ اور پہلو اور تہ در تہ سازش کی جو کڑیاں سامنے آئی ہیں ان سے اگرچہ بہت سارے کردار بے نقاب ہوگئے ہیں۔ کئی چہروں سے پارسائی اور معصومیت کے لبادے اتر گئے ہیں لیکن پھر بھی ضروری ہے کہ معروضی حالات و واقعات کو سامنے رکھ کر پوشیدہ اور عیاں حقائق کو سامنے لانے کی سعی کی جائے۔
ملک ریاض حسین کا نام پنڈی کے باسیوں کےلئے نیا نہیں ۔ بحریہ ٹاﺅن کے منصوبے نے جس طرح دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کی ہے یہ سب آنکھوں کے سامنے کی بات ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ بحریہ ٹاﺅن کے فیز 1تا6بشمول سفاری ولاز اور فیز8,7اور 9جن علاقوں،رقبوں اور زمینوں میں آباد اور Developکئے گئے ہیں اور کئے جارہے ہیں ان علاقوں اور زمینوں کو دیکھنا اور انکے قریب سے یا ان میں سے گزرنا آئے روز کی بات ہے ۔ میں اکثر اپنے گاﺅں چونترہ سے جو اڈیالہ روڈ کے آخری سرے پر پنڈی کے جنوب مغرب میں پینتیس چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اتوار کی شام کو واپس پنڈی آتا ہو ں تو اڈیالہ جیل سے کچھ پرے (پنڈی سے تقریباً پندرہ بیس کلومیٹر دور) دریائے سواں کے اس پار دور دور تک پھیلی جگمگاتی روشنیوں کا ایک جہاں آباد دیکھتا ہوں۔
یہ DHAفیز 1سے ملحقہ بحریہ ٹاﺅن کے فیز8,7 اور9کے علاقے ہیں جو بہت تیزی سے ڈویلپ اور آباد ہورہے ہیں۔ دن کی روشنی میں اونچی نیچی زمینوں ، ٹیلوں، کسیوں، کھائیوں اور کھڈو کو ہموار کر کے دور دور تک پھیلی سڑکوں، پانی کی اونچی ٹینکیوں اور سبزے کے قطعات کو بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔
ملک ریاض حسین کی لا محدود اور بے پناہ دولت کا راز یہی بنجر اور غیر آباد زمینیں ہیں جو انہوں نے چھوٹے بڑے لینڈ مافیاز کی مدد سے اونے پونے داموں خریدیں یا محکمہ مال اور مقامی انتظامیہ کے نچلے درجے سے لیکر اوپر کے درجے تک کے اہلکاروں اور عہدےداروں کی مدد سے کوڑیوں کے مول ہتھیائیں اور پھر انکو Developکر کے بہترین اور مثالی رہائشی سکیموں کی شکل دی اورکروڑوںاربوں روپے کمائے۔
راقم کو اچھی طرح یاد ہے کہ دس بارہ سال قبل جب بحریہ ٹاﺅن کے فیز 8,7اور9کی منصوبہ بندی کی جارہی تھی اور اولپنڈی کے جنوب مشرق میں دریائے سواں کے پار سواں کیمپ سے آگے زمین حاصل کی جارہی تھی تو مورگاہ ، کوٹھہ کلاں،ڈھوک قریشی ، بھنبھٹ ،کلنٹ، گوہڑہ گوجراں، گوہڑہ لوہارں، پنڈ جھاٹلہ، موہڑہ گولڑہ ، موہڑہ ہاشو، ڈھوک کالا خان ، ڈھوک قاضی، تخت پڑی، اور روات وغیرہ کے چھوٹے بڑے دیہات و قصبات میں ہر طرف زمینوں کی اونے پونے داموں خریداری کی لوٹ سیل لگی اور بہت سارے پراپرٹی ایجنٹ اور سرمایہ کارسادہ لوح دیہاتیوں سے انتہائی کم قیمت پر زمینوں کے سودے کر کے آگے بحریہ ٹاﺅن سے منافع کما رہے تھے۔ (جاری)