فوزیہ بشیر (ایڈووکیٹ)
تاریخ عالم گواہ ہے ہمیشہ وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جنکے اپنے ٹھوس نظریات ہوتے ہیں جن پر یہ قومیں سختی سے اور مسلسل کاربند رہتی ہیں مثبت نظریات ہی کائنات کے وجود اور دنیا کی عظمت کی نشانیاں اور ثبوت ہیں۔ پاکستان(پاک سرزمین) کا وجود بھی 1947ءکو ایک عظیم نظریہ، یعنی دو قومی نظریہ کی بدولت آیا۔ یہ دو قومی نظریہ وہی نظریہ ہے۔ جس کی اہمیت کے بارے میں قائداعظم نے فرمایا کہ برصغیر میں”دو قومی نظریہ“ کا وجود آج سے ہزار سال پہلے آگیا تھا جب برصغیر کا پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا اور یہ وہی دو قومی نظریہ ہے۔ جس کی بنا پر 1947ءکو برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں و عزتوں و مال غرض ہر طرح کی قربانی دے کر نہ صرف اس نظریہ کو زندہ رکھا بلکہ اس نظریہ کی لاج پاکستان کی صورت میں رکھی۔ اگر آج 62/63 سال بعد یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کی بنیادوں میں مسلمانوں کا خون اس طرح شامل ہے۔ جیسے کسی عمارت کی بنیادوں کو سیمنٹ اور بجری سے مضبوط کیا جاتا ہے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ وہ نظریاتی مملکت جس کا وجود ہی صرف اور صرف مسلمانوں کی الگ نظریاتی و مذہبی پہچان کے لئے آیا۔ آج اس مملکت میں ہماری نئی نسل کو اس دو قومی نظریے سے نہ صرف دور کیا جا رہا ہے۔ بلکہ رسمی تعلیم کے تمام سیلیبس میں وہ تمام ادبی مواد اور ذخیرہ آہستہ آہستہ تقریباً ختم کر دیا گیا ہے۔ جو بطور پاکستانی مسلم ہماری پہچان ہے۔ اس کے علاوہ نئی نوجوان نسل اور معصوم طالب علموں کو بالکل بھی ان لاکھوں قربانیوں کے متعلق تعلیم کے کسی بھی فورم پر نہیں بتایا جا رہا کہ ہمارے بزرگوں نے یہ وطن کیسے حاصل کیا۔ یہ وہ آزاد وطن جس کی آزاد فضاﺅں میں ہم نہ صرف سانس لے رہے ہیں بلکہ اس وطن عظیم نے ہمیں آزادی، روزی و تعلیم عزت و حمیت و بنیادی حقوق اور وہ سب کچھ دیا جو زندگی ملنے کے بعد ایک شہری کی معراج ہوتے ہیں۔ مگر افسوس صد افسوس دیگر تمام احسان فراموشوں کی طرح ہمارے سیاستدانوں اور ماہرین تعلیم کا ایک ظلم یہ بھی ہے کہ انہوں نے طالب علموں کو اس تعلیمی پس منظر سے آگاہ نہیں کیا جوکہ ان کی پہچان ہے اور جو ہماری نئی نسل کا اثاثہ ہے۔
آج اس اہم مقدس قومی فریضہ کو پورا کرنے کے لئے تقریباً دس سال قبل جناب مجید نظامی صاحب آگے بڑھے اور انہوں نے(نظریہ پاکستان ٹرسٹ) کی بنیاد رکھی تقریباً گزشتہ دس سالوں سے قوم کے نونہالوں کو نہ صرف اساس پاکستان و دو قومی نظریہ سے روشناس کروا رہے ہیں۔ بلکہ اس ادارے نے ملکی سطح پر وہ کام شروع کر دیا ہے۔ جو حکومت اور ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اب 21 جون2010ءسے نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں 10ویں نظریاتی سمر سکول کیمپ کا آغاز ہو رہا ہے جس میں فرزندان وطن کی دو قومی نظریے اور وطن عزیز سے پیار و محبت و خلوص اور وفاداری کی آبیاری کی جائے گی۔ اس سمر کیمپ میں جس دلچسپ و منفرد طریقے سے قوم کے نونہالوں کو تحریر و تقریر کے فن میں ماہر کیا جاتا ہے۔ قیام پاکستان اور قیام پاکستان کے اسباب پر تفصیلاً طالب علموں کو نہ صرف بتایا جاتا ہے۔ بلکہ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کی اساس پر صحیح معنوں میں طالب علموں میں آگاہی پیدا کی جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ منسٹری آف ایجوکیشن اس ادارے سے کچھ سیکھے اور عملی طور پر نافذ کرے جس کی تعلیمی نظام میں اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ پاکستان کے وجود کو قائم رکھنے کے لئے نئی نسل کو نظریہ پاکستان سے روشناس کروانا اتنا ہی ضروری ہے۔ جتنا زندہ رہنے کے لئے انسان کی رگوں میں گرم خون کا بہنا۔
تاریخ عالم گواہ ہے ہمیشہ وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جنکے اپنے ٹھوس نظریات ہوتے ہیں جن پر یہ قومیں سختی سے اور مسلسل کاربند رہتی ہیں مثبت نظریات ہی کائنات کے وجود اور دنیا کی عظمت کی نشانیاں اور ثبوت ہیں۔ پاکستان(پاک سرزمین) کا وجود بھی 1947ءکو ایک عظیم نظریہ، یعنی دو قومی نظریہ کی بدولت آیا۔ یہ دو قومی نظریہ وہی نظریہ ہے۔ جس کی اہمیت کے بارے میں قائداعظم نے فرمایا کہ برصغیر میں”دو قومی نظریہ“ کا وجود آج سے ہزار سال پہلے آگیا تھا جب برصغیر کا پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا اور یہ وہی دو قومی نظریہ ہے۔ جس کی بنا پر 1947ءکو برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں و عزتوں و مال غرض ہر طرح کی قربانی دے کر نہ صرف اس نظریہ کو زندہ رکھا بلکہ اس نظریہ کی لاج پاکستان کی صورت میں رکھی۔ اگر آج 62/63 سال بعد یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کی بنیادوں میں مسلمانوں کا خون اس طرح شامل ہے۔ جیسے کسی عمارت کی بنیادوں کو سیمنٹ اور بجری سے مضبوط کیا جاتا ہے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ وہ نظریاتی مملکت جس کا وجود ہی صرف اور صرف مسلمانوں کی الگ نظریاتی و مذہبی پہچان کے لئے آیا۔ آج اس مملکت میں ہماری نئی نسل کو اس دو قومی نظریے سے نہ صرف دور کیا جا رہا ہے۔ بلکہ رسمی تعلیم کے تمام سیلیبس میں وہ تمام ادبی مواد اور ذخیرہ آہستہ آہستہ تقریباً ختم کر دیا گیا ہے۔ جو بطور پاکستانی مسلم ہماری پہچان ہے۔ اس کے علاوہ نئی نوجوان نسل اور معصوم طالب علموں کو بالکل بھی ان لاکھوں قربانیوں کے متعلق تعلیم کے کسی بھی فورم پر نہیں بتایا جا رہا کہ ہمارے بزرگوں نے یہ وطن کیسے حاصل کیا۔ یہ وہ آزاد وطن جس کی آزاد فضاﺅں میں ہم نہ صرف سانس لے رہے ہیں بلکہ اس وطن عظیم نے ہمیں آزادی، روزی و تعلیم عزت و حمیت و بنیادی حقوق اور وہ سب کچھ دیا جو زندگی ملنے کے بعد ایک شہری کی معراج ہوتے ہیں۔ مگر افسوس صد افسوس دیگر تمام احسان فراموشوں کی طرح ہمارے سیاستدانوں اور ماہرین تعلیم کا ایک ظلم یہ بھی ہے کہ انہوں نے طالب علموں کو اس تعلیمی پس منظر سے آگاہ نہیں کیا جوکہ ان کی پہچان ہے اور جو ہماری نئی نسل کا اثاثہ ہے۔
آج اس اہم مقدس قومی فریضہ کو پورا کرنے کے لئے تقریباً دس سال قبل جناب مجید نظامی صاحب آگے بڑھے اور انہوں نے(نظریہ پاکستان ٹرسٹ) کی بنیاد رکھی تقریباً گزشتہ دس سالوں سے قوم کے نونہالوں کو نہ صرف اساس پاکستان و دو قومی نظریہ سے روشناس کروا رہے ہیں۔ بلکہ اس ادارے نے ملکی سطح پر وہ کام شروع کر دیا ہے۔ جو حکومت اور ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اب 21 جون2010ءسے نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں 10ویں نظریاتی سمر سکول کیمپ کا آغاز ہو رہا ہے جس میں فرزندان وطن کی دو قومی نظریے اور وطن عزیز سے پیار و محبت و خلوص اور وفاداری کی آبیاری کی جائے گی۔ اس سمر کیمپ میں جس دلچسپ و منفرد طریقے سے قوم کے نونہالوں کو تحریر و تقریر کے فن میں ماہر کیا جاتا ہے۔ قیام پاکستان اور قیام پاکستان کے اسباب پر تفصیلاً طالب علموں کو نہ صرف بتایا جاتا ہے۔ بلکہ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کی اساس پر صحیح معنوں میں طالب علموں میں آگاہی پیدا کی جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ منسٹری آف ایجوکیشن اس ادارے سے کچھ سیکھے اور عملی طور پر نافذ کرے جس کی تعلیمی نظام میں اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ پاکستان کے وجود کو قائم رکھنے کے لئے نئی نسل کو نظریہ پاکستان سے روشناس کروانا اتنا ہی ضروری ہے۔ جتنا زندہ رہنے کے لئے انسان کی رگوں میں گرم خون کا بہنا۔