مجید نظامی صحافت کی شان
سمجھ نہیں آتی کہاں سے شروع کروں کہاں ختم کروں جس شخص کی ساری زندگی ہی تابناک ہو۔ اس کے کس پہلو کو موضوع بنایا جائے اور کس کو چھوڑ دیا جائے۔ یہ فیصلہ کرنا بھی بہت مشکل ہے میں کئی بار سوچتا ہوں کہ آج کل صحافت کے جو حالات ہیں اگر مجید نظامی صاحب زندہ ہوتے تو شاید صحافیوں کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ وہ ضرور کوئی حل نکالتے وہ صحافت کو بحرانی کیفیت سے دوچار نہ ہونے دیتے، وہ اس کے لیے جدوجہد ضرور کرتے۔ میں جب ماضی پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے بیشمار واقعات ایسے دیکھائی دیتے ہیں جن پر مجید نظامی صاحب نے دنیا کی پاپولر سوچ کے برعکس سٹینڈ لیا اور پھر وقت نے ثابت کیا کہ مجید نظامی صاحب کا موقف درست تھا۔ وہ پاکستان کے سب سے بڑے مخالف بھارت جس نے پاکستان کو دل سے تسلیم ہی نہیں کیا تھا، اس کی نفسیات کو بڑی اچھی طرح سمجھتے تھے اور وہ ہر موقع پر پاکستان کے حکمرانوں کو بھی یہ سمجھاتے رہے کہ ان کی باتوں میں نہ آئیں یہ آپ کو باتوں میں اُلجھا کر آپ کو ڈی ٹریک کر رہے ہیں، یہ وقت ضائع کر کے اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن انتہائی بدقسمتی کہ ہمارا ہر حکمران بھارتی حکمرانوں کی چکنی چوپڑی باتوں میں آکر وقت ضائع کرتا رہا۔ بھارت پر کشمیر کے حوالے سے جب بھی دبائو کا سامنا کرنا پڑا اس نے مذاکرات کا ڈول ڈالا اور اپنا وقت نکال کر پھر الزام تراشی کی پرانی ڈگر پر چل نکلتا۔ کبھی پاکستان کو باہمی تجارت کبھی ثقافت کبھی عوامی رابطوں کا جھانسہ دیا گیا تو کبھی اعتماد سازی کی فضا قائم کرنے کی باتیں کی گئیں۔ واحد مجید نظامی صاحب تھے جو ہمیشہ یہ کہتے کہ ان کی باتوں پر یقین نہ کرنا یہ تمہیں اُلجھا رہے ہیں۔ وقت نے ثابت کیا کہ جو مجید نظامی صاحب کہتے تھے وہ درست تھا شکر ہے کہ آج کے حکمرانوں کو مجید نظامی صاحب کی رحلت کے بعد احساس ہوا کہ وہ درست کہتے تھے اور آج ہم کشمیر سے کم پر بھارت سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ مجید نظامی صاحب بھارت کی ثقافتی یلغار کو روکنے کی بات کرتے رہے، آج حکومت اس نتیجے پر پہنچی کہ انہیں بھارتی چینلز بھارتی فلموں اور ڈراموں پر پابندی لگانا پڑی۔ مجید نظامی صاحب بھارت سے تجارت کے بھی خلاف تھے، آج حکومت کو ان کی بات ماننا پڑی اور آج ہم نے درست موقف اختیار کیا ہے کہ جب تک کشمیر پر بامقصد بات نہیں ہوتی، ہر قسم کی تجارت بند رہے گی۔ آج پاکستانی حکام انڈیا کے آفیشلز کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مجید نظامی صاحب ساری عمر یہ سمجھاتے رہے کہ بنیا ایسے نہیں مانے گا، آخر کار ان کی تمام باتیں درست ثابت ہوئیں۔ مجید نظامی اپنے اخبار میں تسلسل کے ساتھ افغان باقی کہسار باقی کا اشتہار چلاتے رہے جو آج بھی چل رہا ہے حالانکہ اس وقت ساری دنیا طاقت کے ساتھ کھڑی تھی اور افغانوں کا نام لینا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت بھی نظامی صاحب حق کے ساتھ کھڑے تھے اور وقت نے ثابت کیا کہ آخرکار طاقت کو افغانوں کے سامنے جھکنا پڑا اور مجید نظامی صاحب کی بات درست ثابت ہوئی۔ ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ ہو پاکستان کے دریائوں کے پانی کا مسئلہ ہو ہر معاملہ میں نظامی صاحب کا دوٹوک موقف ہوتا تھا، اگر ہم بغور جائزہ لیں تو آج کی پاکستان کی خارجہ پالیسی کے تمام بنیادی نکات مجید نظامی صاحب کے افکار کی ترجمانی کرتے ہیں۔ انہوں نے ساری عمر حق بات کی اور اس بات کی بھی پروا نہ کی کہ اس سے حکمران یا بڑی شخصیات خفا ہو جائیں گی۔ ان کا جینا مرنا پاکستان کے لیے تھا، انہوں نے ساری زندگی نظریہ پاکستان پر پہرہ دیا، آنے والی نسلوں میں نظریہ پاکستان کو زندہ وجاوید رکھنے کے لیے ادارے قائم کیے جو تاقیامت نسلوں کی ذہنی آبیاری کرتے رہیں گے۔ انہوں نے اپنے ذاتی مفادات کو بالاطاق رکھتے ہوئے ہمیشہ ملک وقوم کے مفاد کی بات کی اور کئی بار اس کی پاداش میں اپنا ذاتی نقصان بھی کیا۔ وہ ہمیشہ لگی لپٹی کے بغیر صاف بات کرتے تھے جس کی وجہ سے کئی بار انہیں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن وہ جابر سے جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرأت رکھتے تھے۔ آج ان کی ساتویں برسی ہے ان کی یادوں نے مجھے جکڑ رکھا ہے، مجھے وہ ہمیشہ نوجوان ایڈیٹر کہہ کر بلاتے تھے یہ ان کا بڑا پن تھا کہ وہ نوائے وقت نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور اپنی دیگر اہم تقریبات میں مجھے مدعو کرتے اور خیالات کے اظہار کا موقع بھی دیتے۔ جب مودی الیکشن جیتا تو نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں ایک فکری نشست ہوئی جس میں مجھے بھی بولنے کا موقع ملا میں نے علاقے کی صورتحال کا نقشہ کھینچا کہ ایک تو بھارتی الیکشن میں کسی مسلمان کو جیتنے نہیں دیا گیا اور دوسرا بھارت کے اب جو عزائم ہیں وہ پاکستان کو سینڈوچ بنانے کی کوشش کرے گا۔ ایک طرف خود پاکستان پر چڑھائی کرے گا دوسرا افغانستان اور ایران کی زمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرے گا۔ میرے اس تھیسز کے بعد انہوں نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا اور کہا کہ پتہ کرو کہ بھارت کے مسلمان سیاستدانوں کو کیا ہوا، ان کی شکست کی وجہ کیا بنی دوسرا انہوں نے اتفاق کیا کہ پاکستان کو بھارت اب بہت زیادہ تنگ کرے گا لیکن فکر نہ کریں یہ انتہا پسندی خود بھارت کو لے ڈوبے گی۔ آج بھارت میں ایک بار پھر نظریہ پاکستان کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے وقت نے یہ بھی ثابت کیا کہ بھارت اپنے اندرونی مسائل کے بوجھ تلے ہی دبتا چلا جا رہا ہے۔ مجید نظامی صاحب کو بچھڑے سات برس گزر گئے لیکن وہ اپنے افکار کے باعث آج بھی ہم میں موجود ہیں وہ ڈسپلن کے بہت پابند تھے۔ ہمیشہ ہر جگہ وقت سے پہلے پہنچتے تھے، صفائی پسند تھے ساری عمر خوبصورت لباس زیب تن کیا، حق بات پر چھوٹے سے چھوٹے ملازم کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور بڑے سے بڑے لوگوں کی ناراضی مول لے لی ان کے اصول نظریات اور افکار انہیں ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔