مجید نظامی - جہد مسلسل کا نام
26 جولائی کو آپ کی چوتھی برسی منائی جا رہی ہے
شاہد رشید
مارشل لاء کی گھٹن نے جناب حمید نظامی کو عارضۂ قلب میں مبتلا کر دیا۔ جب وہ بستر علالت پر تھے تو ان کے چھوٹے بھائی جناب مجید نظامی برطانیہ میں نوائے وقت کے بیوروچیف کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھے۔ جناب حمید نظامی کے کہنے پر آغا شورش کاشمیری نے جناب مجید نظامی کو لندن فون کر کے پاکستان آنے کا کہا۔ جناب مجید نظامی فوراً وطن واپس آئے۔ بڑے بھائی جناب حمید نظامی سے ملے تو انہوں نے آخری بار آنکھیں کھولیں اور کہا کہ ’’اچھا‘ تم آگئے ہو؟‘‘ جناب مجید نظامی نے جواب دیا‘ ’’ہاں! میں آگیا ہوں۔‘‘ ’’اچھا کیا‘‘ کہا اور اس کے بعد مرحوم نے آنکھیں نہ کھولیں۔ 25 فروری 1962ء کو اپنی وفات سے قبل جناب حمید نظامی نے تمام قانونی تقاضے پورے کر کے چھوٹے بھائی مجید نظامی کو اپنا جانشین اور اخبار کا ایڈیٹر مقرر کر دیا تھا۔ وفات کے اگلے دن جب نوائے وقت کا شمارہ شائع ہو ا تو جناب مجید نظامی وہ شمارہ لے کر بھائی کے جسد خاکی کے پاس گئے اور وہ تازہ شمارہ ان کے سینے پر رکھ دیا جواس امر کی علامت اور عزم کا اظہار تھا کہ ہم آپ کے مشن کو آگے بڑھائیں گے۔
ان دنوں امیر محمد خان آف کالا باغ مغربی پاکستان کے گورنر تھے۔ وہ مرحوم حمید نظامی کے دوست اور مداح تھے۔ وہ فاتحہ کہنے کے لیے جناب حمید نظامی کے گھر آئے۔ بعد میں جناب مجید نظامی کو گورنر ہائوس میں چائے پر بلایا۔ وہ وہاں گئے تو انہوں نے باتوں باتوں میں کہا ’’اوپر اللہ کی ذات ہے اور نیچے صدر ایوب خان۔ چنانچہ اگر مجھے کبھی صدر ایوب خان نے نوائے وقت اخبار کو بندکرنے کے لیے کہا تو میں ایک منٹ کی تاخیر نہیں کروں گا لیکن تم مرد نہیں ہو گے اگر تم اخبار کو اپنے بھائی کی پالیسی کے مطابق جاری نہیں رکھو گے۔‘‘ یہ بات سن کر جناب مجید نظامی نے پورے عزم و استقلال کے ساتھ جواب دیا ’’جناب! آپ مجھے انشاء اللہ مرد ہی پائیں گے۔‘‘
جناب مجید نظامی کی ایسی جرأت مندانہ صحافت نے روزنامہ نوائے وقت کو قائدؒ اور اقبالؒ کے سیاسی و جمہوری تصورات کا علمبردار اور عوامی امنگوں کا ترجمان بنا دیا۔ اس کی بناء پر جناب مجید نظامی فوجی حکمران اور اس کے اعضاء و جوارح کی آنکھوں میں خار بن کر کھٹکتے تھے۔
پاکستان کی سیاسی اور صحافتی تاریخ میں اُس ہنگامہ خیز دور کو شاید کبھی فراموش اور نظر انداز نہیں کیا جائے گا جب ایوب خان نے مملکتِ پاکستان کے صدارتی انتخابات میں امیدوار بننے کا اعلان کیا۔ اس کے مقابلے میں بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظمؒ کی ہمشیرہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی امیدوار بننے پر رضامند ہو گئیں۔
جناب مجید نظامی نے ہرقسم کے سود وزیاں کو پس پشت ڈال کر مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کا بھرپور ساتھ دیا۔ پورے ملک میں صرف ایک جناب مجید نظامی ہی تھے جنہوں نے پاکستان سے جمہوریت کی صف لپیٹنے والے آمر جنرل ایوب خان کے مقابلے میں جمہوریت کی بحالی‘ پارلیمانی نظام کے احیاء اور شہری آزادیوں کی بازیابی کے لیے مادرِ ملت کی خاطر اپنے آپ اور نوائے وقت کو وقف کر دیا۔
ان دنوں نوائے وقت نے محترمہ فاطمہ جناحؒ کے نام سے پہلے ان کے مقام و مرتبہ کے تقاضوں کی روشنی میں ’’مادرِ ملت‘‘ لکھنا شروع کیا۔ یہ خطاب بانیٔ پاکستان کی ہمشیرہ کو نوائے وقت ہی کی طرف سے دیا گیا اور انتخابات کے حوالے سے چلنے والی مہم کے دوران حکومت نے اخبارات کو باقاعدہ پریس ایڈوائس جاری کی کہ محترمہ فاطمہ جناحؒ کے نام سے قبل ’’مادرِ ملت‘‘ نہ لکھا جائے مگر جناب مجید نظامی نے ایسی کسی ایڈوائس کو اہمیت نہ دی۔ نوائے وقت نے اپنے اداریوں‘ خبروں‘ کالموں میں مادرِ ملت کے انتخابی نشان لالٹین کے حوالے سے مضامین لکھ کر ملک میں آمریت کے خلاف نفرت کی فضا کو پروان چڑھایا۔ اس صورت حال نے اقتدار کے ایوانوں کو لرزہ براندام کئے رکھا۔ بدقسمتی سے مادرِ ملتؒ کو زبردست دھاندلی کے ذریعے ہروایا گیا حالانکہ مشرقی پاکستان میں وہ بھاری اکثریت سے الیکشن جیت چکی تھیں۔ نوائے وقت نے اس پر یہ تاریخی سرخی جمائی ’’الیکشن کمیشن نے ایوب خان کو کامیاب قرار دے دیا۔‘‘
نوائے وقت کے دور ثانی میں جناب مجید نظامی نے ایک نئے ولولے اور عزم کے ساتھ نوائے وقت کا دوبارہ اجراء کیا اور اسے عوامی امنگوں سے ہم آہنگ ایک مقبول عام قومی نظریاتی اخبار بنا دیا۔۔ نوائے وقت اور اس کی ذیلی مطبوعات دی نیشن‘ فیملی‘ پھول‘ ندائے ملت کے علاوہ وقت نیوز چینل کے تمام انتظامی معاملات کی دیکھ بھال بھی وہ خود کرتے تھے۔ جب اُنہوں نے ایوانِ اقبالؒ تعمیر کرنے کی تجویز دی تو اس وقت کے پنجاب کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل اقبال نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ’’ہم اس عیاشی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔‘‘ جناب مجید نظامی کا جواب تھا ’’جنرل صاحب! آج آپ‘ میں اور سب اس وجہ سے ہیں کہ پاکستان نے ہمیں یہ بننے کا موقعہ دیا۔ اگر پاکستان نہ بنتا تو شاید آج آپ حوالدار بھی نہ ہوتے۔‘‘
جناب مجید نظامی متعدد مرتبہ کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز(CPNE)اور آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی(APNS)کے صدر رہے۔ جناب مجید نظامی ان بین الاقوامی شخصیات میں شامل تھے۔ جنہوں نے سب سے زیادہ غیر ملکی دورے کئے۔ جناب مجید نظامی ہی کی دن رات کی ریاضت کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے جس اخبار کی ادارت و انتظامی امور کی مسند بے سروسامانی کی حالت میں سنبھالی تھی‘ آج وہ ایک ایمپائر کی صورت اختیار کرچکا ہے۔
جس میں الیکٹرانک میڈیا کا وقت نیوز ٹیلی ویژن بھی شامل ہے۔ اس وقت جناب مجید نظامی کی اکلوتی بیٹی محترمہ رمیزہ مجید نظامی ان کی جانشین ہیں اور امور کو احسن طریق سے چلا رہی ہیں۔
٭٭٭