مجید نظامی اور پھول
محمد شعیب مرزا
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ اور مصورِ پاکستان علامہ اقبالؒ نے اپنی بصیرت افروز نگاہوں سے دیکھ لیا تھا کہ قوموں کے تابناک مستقبل کا دارومدار نئی نسل کی بہتر تربیت و رہنمائی سے مشروط ہے لہٰذا انہوں نے ہمیشہ نئی نسل کو اہمیت اور توجہ دی۔ جناب مجید نظامی نے اسی بصیرت سے کام لیتے ہوئے 1989ء میں نئی نسل کی رہنمائی، تربیت اور دلچسپی کے لئے ماہنامہ ’’پھول‘‘ کا اجراء کیا جو تقریباً 25 سال سے باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے۔ دیگر اخباری گروپس نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اس میں زیادہ معاشی مفادات کا حصول ممکن نہ تھا۔ لیکن جناب مجید نظامی ہمیشہ قومی مفاد کو عزیز رکھتے تھے۔ ان کی بے لوث سرپرستی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ’’پھول‘‘ دنیا بھر میں سب سے مقبول اُردو میگزین ہے۔ کئی عالمی اور قومی اداروں کی طرف سے ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا جا چکا ہے پاکستان کے وزیراعظم‘ وزراء اعلیٰ‘ گورنرز‘ وفاقی و صوبائی وزراء اور تقریباً تمام شعبوں کی اہم شخصیات ’’پھول‘‘ کے معیار اور خدمات کو خراج تحسین پیش کر چکی ہیں۔
جناب مجید نظامی ’’پھول‘‘ کے معاملات میں خصوصی دلچسپی لیتے تھے اور ہر طرح سے تعاون کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ نئی نسل کی تربیت کر رہا ہے۔ ’’پھول‘‘ کے زیر اہتمام ہونے والے پروگراموں میں وہ خصوصی طور پر شرکت کرتے تھے۔ ان کو جب کسی پروگرام میں شرکت کی تحریری دعوت دی جاتی تو اکثر لکھتے ’’کافی مصروفیات ہیں کوشش کروں گا‘‘ اور انتہائی خوشی ہوتی جب وہ ساری مصروفیات ترک کر کے پروگرام میں تشریف لے آتے۔ بچوں سے خطاب کرتے۔ مجھ سے پوچھتے ان کی تواضع کے لئے کیا اہتمام کیا ہے۔ پروگرام میں آنے والے تمام بچوں کو پھول میگزین دینے کی تاکید کرتے۔ پروگرام کے دوران اکائونٹس ڈیپارٹمنٹ میں ایک پرچی بھجواتے اور مطلوبہ تعداد میں سو سو روپے والے نئے نوٹ آ جاتے اور کہتے کہ یہ تمام بچوں کو آئس کریم کے لئے تقسیم کردیں۔ ایک مرتبہ میں نے اور معروف لکھاری حافظ مظفر محسن صاحب نے ان سے کہا کہ ہمیں بھی سو روپے دیں تو انہوں نے مسکراتے ہوئے ہم دونوں کو سو سو روپے دئیے۔ ہم دونوں نے ان نوٹوں پر ان کے دستخط بھی کروائے جو آج بھی ہمارے پاس یادگار کے طور پر محفوظ ہیں۔ وہ اپنے کارکنان کی خاص انداز سے تربیت کرتے تھے۔ مجھے جب 2003ء میں انہوں نے ’’پھول‘‘ کی ادارت سونپی تو میری کارکردگی پر گہری نظر رکھی۔ ایڈیٹوریل کے احباب سے اطمینان کا اظہار کرتے لیکن مجھے ابتدائی پانچ چھ ماہ نوٹس بھجواتے رہے کہ کارکردگی کو مزید بہتر بنائیں۔ گویا وہ اپنے کارکنان کو کندن بنانا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج صحافت میں جتنے بھی بڑے بڑے نام ہیں وہ جناب مجید نظامی کے تربیت یافتہ ہیں اور سب برملا اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔
میں نے جب ادارت سنبھالنے کے بعد ’’پھول‘‘ کی سالگرہ کی تقریب منعقد کی اور ’’پھول‘‘ کے لکھاریوں‘ اشتہارات دینے والے اداروں‘ پروگراموں میں شرکت کرنے والے بچوں اور ادارہ نوائے وقت کے تمام شعبوں کے انچارج صاحبان کو ایوارڈز دئیے تو جناب مجید نظامی بہت خوش ہوئے۔ مجھے دفتر میں بلا کر شاباش دی‘ ایک تعریفی خط اپنے ہاتھ سے تحریر کر کے دیا،اس حوصلہ افزائی کو میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ وہ ’’پھول‘‘ کے حوالے سے ہر طرح کا تعاون کرتے تھے۔ کوئی جائز مطالبہ انہوں نے کبھی رد نہیں کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ’’پھول‘‘ ملک بھر کے رسائل میں سب سے زیادہ صفحات کے ساتھ سب سے کم قیمت پر فروخت ہوتا ہے۔ اکائونٹس والے اس طرف توجہ دلاتے تو مسکرا کر بات ٹال دیتے اور کہتے کہ بچے رسائل اپنے جیب خرچ سے خریدتے ہیں ان پر بوجھ پڑے گا۔ وہ نفع نقصان کی پرواہ کئے بغیر ’’پھول‘‘ کی سر پرستی کرتے رہے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ پاکستان کے روشن مستقبل کے لئے آج کے بچوں کی تربیت ضروری ہے۔ یہ وہ صدقہ جاریہ ہے جو جنت میں ان کے درجات کو بلند کرتا رہے گا۔
جناب مجید نظامی نے جس طرح ماہنامہ’’ پھول‘‘ اور قوم کے پھول جیسے بچوں کو تعلیم، تفریح اور تربیت فراہم کرنے میں مثالی خدمات انجام دی ہیں ملک بھر کے بچے اس کے لئے ان کے شکر گزار اور دعا گو ہیں۔ پھول جیسے ان سب بچوں کی دعا ہے کہ۔
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے