پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی توانائی کا بحران مستقل بنیادوں پر حل کرنے کیلئے دن رات کام کیا۔ یہی سبب ہے کہ آہستہ آہستہ عوام کو ریلیف ملنا شروع ہو گیا ہے اور حالات بہتری کی طرف گامزن ہو چکے ہیں۔ پنجاب میں محمد شہباز شریف نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے عوام میں سولر انرجی کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اور سورج کی مہربانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب نے ایک روز پہلے ایک بین الاقوامی کنشوریشم کے ساتھ سولر پراجیکٹس کے حوالے سے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کر دیے ہیں۔
جس عالمی کنسوریشم کے ساتھ شمسی توانائی پر مفاہمت کی یاداشت پر دستخط کئے گئے ہیں اس کنسوریشم میں سوئٹزر لینڈ، جرمنی، اٹلی، آسٹریا اور پاکستان شامل ہیں۔ اس موقع پر شیر علی خان کے علاوہ متعلقہ وزارتوں کے اعلیٰ حکام بھی شریک تھے۔ مفاہمت کی یادداشت کے تحت کنسوریشم فیصل آباد میں سولر پینل، سولر سیلز اور بیٹریز کی اسمبلنگ اور مینو فیکچرنگ کا پلانٹ لگائے گا اس کے علاوہ فیصل آباد، سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور لاہور کے صنعتی زونز کے قریب چار چار سو میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے سولر پاور منصوبے لگانے کا جائزہ لے گا جبکہ پنڈی بھٹیاں سے فیصل آباد تک 150 میگا واٹ کا پلانٹ لگایا جائے گا۔
نیز پنجاب کے زرعی شعبہ کا دیرینہ مسئلہ حل کرنے کیلئے اس کا عملی حل بھی پیش کرے گا۔ اس وقت زرعی لاگت میں بیجوں، کھادوں سے زیادہ خرچہ ٹیوب ویل چلانے پر آتا ہے۔ پاکستان کے ہمسایہ ممالک تو زرعی ٹیوب ویلوں پر سبسڈی دیتے ہیں لیکن پاکستان میں عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط تسلیم کرنے کی وجہ سے زرعی ٹیوب ویلوں پر بجلی کا بل بھرپور لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ٹیوب ویلوں کی بجلی کاشتکاروں کو بہت مہنگی پڑتی ہے۔
اتفاق سے عالمی کنسوریشم سے مفاہمت کی یادداشت سے پہلے کچھ کسانوں نے عقلمندی اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سولر انرجی کے ٹیوب ویل لگوائے ہیں۔ ان ٹیوب ویلوں کی وجہ سے زمیندار بہت زیادہ خوش ہیں کیونکہ انہیں ایک تو بروقت پانی مل جاتا ہے یہ نہیں ہوتا کہ زمینوں کو پانی لگانے کا وقت ہو گیا ہے اور بجلی چلی گئی ہے اور کسان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتا ہے، اب حکومت پنجاب کے اس منصوبے کی وجہ سے نئے کاشتکاروں کی اکثریت کو بہت فائدہ ہو گا۔
وفاقی حکومت پہلے ہی شمسی توانائی سے چلنے والی ہر چیز پر ہر قسم کی ڈیوٹی معاف کر چکی ہے اگر کوئی چھپی ہوئی ڈیوٹی موجود بھی ہے تو اسے بھی ختم کر دینا چاہئے۔ ویسے یہ وفاقی حکومت کی حقیقت پسندانہ شمسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ اس وقت ہال روڈ سمیت بے شمار علاقوں میں شمسی توانائی کی مصنوعات فروخت ہو رہی ہیں، جب پنجاب میں کنسوریشم اپنا منصوبہ شروع کر دے تو پھر عوام کو بہت زیادہ سہولت میسر آ جائے گی۔
اس وقت کیونکہ شمسی توانائی سے چلنے والی بیٹریاں، سولر پینلز اور سیلز براہِ راست درآمد کئے جا رہے ہیں اس لئے ان کی قیمتوں تاجروں کا معقول منافع بھی شامل ہوتا ہے لیکن جب یہی مصنوعات پاکستان میں بننی شروع ہو جائیں گی تو ان کی مقبولیت اتنی زیادہ ہو گی کہ خود کنسوریشم کے ممالک بھی حیران رہ جائیں گے۔
ویسے اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد شہباز شریف نے لوڈشیڈنگ کی وجہ سے طلبہ کو پڑھائی کیلئے جو سولر لیمپس گفٹ کئے تھے ان کی وجہ سے عوام کو سولر انرجی کے فوائد کا علم ہوا ہے اور پہلی بار انہیں معلوم ہوا ہے کہ سولر انرجی استعمال کر کے بجلی کے بلوں کی مد میں کتنی معقول رقم بچائی جا سکتی ہے۔ امید ہے کہ پنجاب حکومت سولر انرجی کے منصوبے کو بالکل اسی طرح پورا کرے گی جیسے میٹرو بس کا مشکل ترین منصوبہ ریکارڈ مدت میں پورا کیا تھا۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024