ظفر قریشی کی معطلی پر فیصلہ محفوظ....ڈی جی (ایف آئی اے) کو ہتھکڑی لگا کر پیش کیا جائے : سپریم کورٹ
اسلام آباد ( نمائندہ نوائے وقت ) سپریم کورٹ نے این آئی سی ایل کیس کے تحقیقاتی افسر ظفر قریشی کی معطلی کے حوالے سے فیصلہ محفوظ کر تے ہوئے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو ہدایت کی ہے کہ اگر ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے تحسین انور شاہ عدالت میں پیش نہیں ہوتے تو انہیں گرفتار کر کے ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کیا جائے۔ عدالت عظمیٰ نے میڈیا پر اعلیٰ عدلیہ کے خلاف اشتہاری مہم چلانے والے افراد کی نشاندہی کر نے کی ہدایت کرتے ہوئے وزارت اطلاعات کی رپورٹ مسترد کر دی اور میڈیا کو اشتہارات دینے والے افراد کے خلاف کارروائی کا حکم دیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سر براہی میں جسٹس طارق پرویز اور جسٹس امیرہانی مسلم پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے این آئی سی ایل اراضی سکینڈل کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق نے تسلیم کیا کہ لندن کے بنکوں میں مونس الٰہی‘ محسن حبیب وڑائچ اور ان کی اہلیہ کے اکاﺅنٹس میں 13 لاکھ پاﺅنڈ موجود ہیں جو این آئی سی ایل کے ہیں تاہم برطانوی حکومت نے کہا ہے کہ اس رقم کی واپسی کے لئے باقاعدہ قانونی راستہ اختیار کیا جائے۔ مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی تو سیکرٹری اطلاعات تیمور عظمت عثمان نے میڈیا پر عدلیہ کے خلاف اشتہاری مہم کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد چیف جسٹس نے سیکرٹری اطلاعات کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے انہیں میڈیا پر اشتہارات دینے والوں کے خلاف کارروائی کے بارے میں کہا تھا لیکن وہ پیمرا اور جمہوری حکومت کے اختیارات کے بارے میں لکھ کر لے آئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے ان اشتہارات کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا اور کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عدالت کو پیمرا یا جمہوری حکومت کے اختیارات کا علم نہیں۔ عدالت نے سیکرٹری اطلاعات کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو بتائیں کہ کن افراد نے یہ اشتہارات میڈیا کو دیئے ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ عدالت نے سیکرٹری اطلاعات کو ہدایت کی کہ وہ ذاتی طور پر اس معاملے کو دیکھیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتوں کے ساتھ مذاق بنایا ہوا ہے عدلیہ کی عظمت پر کوئی سودا نہیں کیا جائے گا‘ عدالتی امور میں سیاسی مداخلت شروع ہو گئی۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ این آئی سی ایل کیس کی تحقیقات میں کیا پیش رفت ہوئی ہے تو اٹارنی جنرل نے بیرون ممالک محسن وڑائچ کی اہلیہ اور مونس الٰہی کے اکاﺅنٹس کے بارے میں ریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کرتے ہوئے م¶قف اختیار کیا کہ تحقیقاتی افسروں کے مطابق لندن کے بنکوں میں محسن حبیب وڑائچ اور مونس الٰہی کے اکاﺅنٹس میں موجود 13 لاکھ پا¶نڈ این آئی سی ایل کے ہیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ عدالت نے انہیں ہدایت کی تھی کہ وہ تفصیلی رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں کہ کل کتنی رقم بیرون ملک ہے اور کتنے ملزم بیرون ملک فرار ہیں انہیں کیسے واپس لانا ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ بھی ٹیکس دیتے ہیں پھر حکومت ملک کا پیسہ واپس لانے سے انکاری کیوں ہے۔ جسٹس امیرہانی مسلم نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے تحسین انور شاہ عدالت میں پیش کیوں نہیں ہو رہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا عدالت اس حد تک جائے کہ ڈی ایف آئی اے کے وارنٹ جاری کئے جائیں۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ وہ عدالت کو بتائیں کہ ظفر قریشی کو کس قانون کے تحت گرفتار کیا جس پر اٹارنی جنرل نے سول سروس ایکٹ کے رول 5 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ظفر قریشی نے ڈی جی ایف آئی اے کو خط لکھ کر مس کنڈکٹ کیا اس لئے انہیں معطل کیا گیا جس پر جسٹس امیرہانی مسلم نے کہا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ ظفر قریشی نے کون سی دفتری اطلاعات لیک کی تھیں اور کس چینل کو لیک کی تھیں جس پر ان سے 24 گھنٹے میں وضاحت طلب کی گئی۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے گذشتہ سماعتوں پر دیئے گئے تمام عدالتی احکامات اور ظفر قریشی کی جانب سے ڈی جی ایف آئی اے کے نام اپنے چار معاون افسروں کے تبادلے کے بارے میں لکھے گئے خط سمیت ڈی ایف آئی اے کی طرف سے سیکرٹری داخلہ کو لکھے گئے لیٹر بھی پڑھوائے۔ عدالت نے بار بار ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اور ڈائریکٹر لیگل ایف آئی اے اعظم خان کو بلانے کے لئے کہا تاہم وہ عدالت میں حاضر نہ ہوئے۔ بعدازاں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سہیل احمد عدالت میں پیش ہوئے اسی دوران رجسٹرار سپریم کورٹ نے عدالت کو رپورٹ دی کہ ڈی جی ایف آئی اے سے رابطہ نہیں ہو سکا‘ وہ موبائل فون بھی نہیں سن رہے‘ چیف جسٹس نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو ہدایت کی کہ اگر ڈی جی ایف آئی اے عدالت میں پیش نہیں ہوتے تو انہیں ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا جائے کیونکہ انہوں نے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کا پیسہ لوٹا گیا ہے اسے واپس لانے کے سنجیدگی کیوں نہیں دکھائی جا رہی۔ اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق نے م¶قف اختیار کیا کہ مجاز اتھارٹی (وزیراعظم) کا ردعمل عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکا کیونکہ وہ بیرون ملک دورے پر تھے۔ ظفر قریشی سے معطلی کے بارے میں مجاز اتھارٹی کی رائے سے متعلق سیکرٹریز کے حوالے سے مزید مہلت دی جائے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بہت وقت دیا گیا اب حکم دیا جائے گا اس موقع پر سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے بتایا کہ عدالتی حکم پر ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کے خلاف سمری وزیراعظم کو بھیجی گئی ہے تاہم 5 روز گذرنے کے باوجود اس کا جواب نہیں آیا۔ عدالت نے ظفر قریشی کی معطلی کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے قرار دیا کہ فیصلہ ایک دو روز میں سنا دیا جائے گا۔