صوبہ سندھ میں یہ پہلا ضلع تھا جہاں پر میں نے ایس پی کی حیثیت سے کام کیا تھا۔ وہاں کے باسی اپسے امن پسند اور زندہ دل تھے۔ اس ضلع میں ایک بڑا زمیندار تھا جو اپنے ہاریوں پر بڑے ظلم ڈھاتا تھا۔ اس نے ان پر اپنا رعب جمانے کیلئے یہ ڈھونگ رچایا تھا کہ اسکی میز پر ایک ٹیلی فون رکھا ہوا تھا جس کا تار کٹا ہوا تھا۔ اس راز سے غریب اور مظلوم ہاری ناواقف تھے۔ وہ انکی موجودگی میں بظاہر کبھی ڈپٹی کمشنر سے اور کبھی ایس پی سے بے تکلفی سے باتیں کرتا تھا اور وہ یوں اس سے خوف زدہ رہتے تھے۔ اس نے اپنی ایک ذاتی جیل بھی بنائی ہوئی تھی جہاں پر انہیں وہ قید کر دیتا تھا۔ میں نے اس ظالم کا ’’غنڈا ایکٹ‘‘ میں چالان کروا دیا تھا۔ میرے تبادلے کے بعد جب وہ رہا ہوا تو اس نے میرے خلاف ایک جھوٹا کیس دائر کر دیا مگر اس شہر کے باسی ایسے میرے ممنونِ احسان تھے کہ انہوں نے کانوں کان مجھے خبر نہ ہونے دی اور وہاں کے وکلاء نے مفت میرا دفاع کیا۔ میں نے اس ضلع میں ڈھائی برس قیام کیا اور دفتر میں آویزاں بورڈ سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ کوئی ایس پی اس ضلع میں اتنا طویل عرصہ نہ ٹکا تھا۔ وہاں پر یہ عجیب رواج تھا کہ اس ضلع اور اس سے ملحقہ ضلع سانگھڑ کی سرحد کے زمیندار ہفتہ میں ایک بار ضرور ایس پی اور ڈی سی کے دفتر میں حاضری دیا کرتے تھے۔ ان زمینداروں میں جام صادق علی مرحوم بھی شامل تھے جو بعد میں مجھ سے روٹھ گئے تھے کیونکہ وہ ہمیشہ کوئی غلط فرمائش لیکر تشریف لاتے تھے اور میں ایسا کوئی کام نہیں کرتا تھا پھر بعد کو یہ ماجرا پیش آیا کہ میرا تبادلہ مشرقی پاکستان ہو گیا تھا اور میں نے وہاں جنگی قیدی بن کر ڈھائی برس طویل عرصہ بھارت کی قید میں گزارا۔ رہائی کے بعد جس دن میں بذریعہ ریل گاڑی کراچی پہنچا تو میں شام کو طارق روڈ پر بھائی صاحب کے مکان میں لان میں بیٹھا ہوا اپنی داستان غم سنا رہا تھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک لمبی چوڑی گاڑی جس پر سبز ہلالی پرچم لہرا رہا تھا صدر دروازے سے اندر داخل ہوئی۔ اس میں سے جام صاحب برآمد ہوئے اور گرم جوشی کے ساتھ بغل گیر ہو گئے اور بولے ’’سائیں‘ میں سیدھا سکھر سے آ رہا ہوں وہاں دورے پر گیا تھا اور یہ معلوم ہوا تھا کہ تم بھارت کی قید سے آزاد ہو کر بذریعہ ریل گاڑی کراچی گئے ہو تو وہاں سے فوراً کراچی کیلئے روانہ ہو گیا‘‘ یہ کہتے ہوئے موصوف نے اپنی جیب سے دو کاغذ برآمد کئے اور فرمایا ’’مجھے خوب معلوم تھا کہ تمہارا کوئی ذاتی مکان نہیں ہے اسلئے میں نے مکان کی تعمیر کیلئے زمین کا الاٹمنٹ آرڈر اور بنک سے قرضہ کا بندوبست کر لیا تھا‘‘۔ میں نے وہ دونوں کاغذ شکریہ کیساتھ موصوف کو واپس کر دیئے اور عرض کیا ’’مجھے فی الحال مکان کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
جام صاحب کو انکی نوازشوں پر میرا ردعمل ایک آنکھ نہ بھایا اور وہ دفعتاً اٹھ کر رفو چکر ہو گئے۔ ان کے ردعمل سے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ کسی گھمبیر مسئلہ میں انہیں میری مدد درکار تھی۔ میر پور خاص کی ایک اور رونقِ محفل شخصیت وہاں کے ایک ایگزیکٹو انجینئر تھے موصوف جب کہیں بڑا ہاتھ مارتے تو ضلع کے تمام افسران اور انکی بیگمات کو بس میں بھر کر حیدر آباد لے جاتے اور وہاں پر کوئی فلم دکھاتے اور دعوتِ طعام کا بندوبست کرتے۔ ایک مرتبہ یہ تماشا ہوا کہ انکے محکمے کے قسمت کے مارے‘ وزیر بے تدبیر‘ میرپور خاص میں براجمان ہو گئے۔ موصوف کے اعزاز میں انجینئر صاحب نے نہ صرف پرتکلف طعام کا بندوبست کیا بلکہ رقص و سرود کا بھی اہتمام تھا۔ انجینئر صاحب نشہ کے عالم میں بیچ بیچ میں وزیر موصوف کے سر مبارک پر کچھ رقم رکھ دیتے تھے اور وہ کنجری بڑے پیار سے موصوف کا کان مروڑ کر اسے اپنے گریبان میں رکھ لیتی تھی۔ ان دنوں علمدار رضا میرپور خاص کے ڈپٹی کمشنر تھے اور اکثر شام کو میرے ہاں یا رضا کے یہاں محفل جمتی تھی۔ ان محفلوں کی رونق بادشاہِ محل کے دم سے تھی جو محکمہ ریلوے میں افسر تھے۔ میں نے موصوف کی شان میں مندرجہ ذیل اشعار کہے تھے:۔
ہیں میر پور خاص کی جان بادشاہ علی
افسوس ان دنوں ہیں نہان بادشاہ علی
ہے پٹڑی ایک طرف تو سڑک دوسری طرف
حائل ہیں درمیان میاں بادشاہ علی
جام صاحب کو انکی نوازشوں پر میرا ردعمل ایک آنکھ نہ بھایا اور وہ دفعتاً اٹھ کر رفو چکر ہو گئے۔ ان کے ردعمل سے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ کسی گھمبیر مسئلہ میں انہیں میری مدد درکار تھی۔ میر پور خاص کی ایک اور رونقِ محفل شخصیت وہاں کے ایک ایگزیکٹو انجینئر تھے موصوف جب کہیں بڑا ہاتھ مارتے تو ضلع کے تمام افسران اور انکی بیگمات کو بس میں بھر کر حیدر آباد لے جاتے اور وہاں پر کوئی فلم دکھاتے اور دعوتِ طعام کا بندوبست کرتے۔ ایک مرتبہ یہ تماشا ہوا کہ انکے محکمے کے قسمت کے مارے‘ وزیر بے تدبیر‘ میرپور خاص میں براجمان ہو گئے۔ موصوف کے اعزاز میں انجینئر صاحب نے نہ صرف پرتکلف طعام کا بندوبست کیا بلکہ رقص و سرود کا بھی اہتمام تھا۔ انجینئر صاحب نشہ کے عالم میں بیچ بیچ میں وزیر موصوف کے سر مبارک پر کچھ رقم رکھ دیتے تھے اور وہ کنجری بڑے پیار سے موصوف کا کان مروڑ کر اسے اپنے گریبان میں رکھ لیتی تھی۔ ان دنوں علمدار رضا میرپور خاص کے ڈپٹی کمشنر تھے اور اکثر شام کو میرے ہاں یا رضا کے یہاں محفل جمتی تھی۔ ان محفلوں کی رونق بادشاہِ محل کے دم سے تھی جو محکمہ ریلوے میں افسر تھے۔ میں نے موصوف کی شان میں مندرجہ ذیل اشعار کہے تھے:۔
ہیں میر پور خاص کی جان بادشاہ علی
افسوس ان دنوں ہیں نہان بادشاہ علی
ہے پٹڑی ایک طرف تو سڑک دوسری طرف
حائل ہیں درمیان میاں بادشاہ علی