قاری محمدمیاں....سرزمین اولیاءکی عہدساز شخصیت

سر زمین ملتان کو برصغیر میں اس لحاظ سے انفرادی اعزاز حاصل ہے کہ اس میں بے شمار اولیاءکرام نے ترویج واشاعت دین کیلئے اپنے آپ کو وقف کیا اور آج بھی یہ مزار انوار وتجلیات اور فیوض وبرکات کا منبع ہے اسے بجا طور پر مدین الاولیاءکہا جاتا ہے ہزاروں مقبولان خدا اور وارثان علوم مصطفی یہاں جلوہ افروز ہیں اس کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔یہ شہر ہمیشہ سے دین ودانش ،شریعت وطریقت اور علم ومعرفت کامرکز ایسی ہستیوں میں سے ایک نام حضور پیر طریقت قائد تحریک نظام مصطفی حضرت علامہ مولانا حامد علی خان نقشبندی مجددی ہیں آپ کی عظمتوں کا ایک زمانہ معترف ہے آپ کو اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑا فرزند جن کا نام بہاﺅالدین محمد علی نقشبندی مجددی رکھا گیا المعروف قاری بہاﺅالدین محمدمیاں آپ کی ولادت 14 اگست 1950 رام پور انڈیا میں ہوئی آپ کا بچپن ولایت کی آغوش میں ہوا۔ابتدائی تعلیم کا آغاز ،استاذ القراءوالحاظ ولی کامل قاری محمد میاںنقشبندی مجددی سے عرصہ تین سال میں قرآن کریم حفظ باالتجویز کیا پرائمری تعلیم خیرالمعاد سے حاصل کی درس نظامی والد گرامی حضرت قبلہ شیخ التفسیر پیر طریقت مولانا حامد علی خان سے حاصل کی۔میٹرک گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول عام خاص باغ سے امتیازی پوزیشن میں کی۔1968میں ولایت حسین اسلامیہ کالج سے انٹر کا امتحان اعلی نمبروں سے پاس کیا۔1972میں گورنمنٹ کالج بوسن روڈ سے بی اے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا 1974 میں ایم اے اکنامکس۔ایم اے اسلامیات پنجاب یونیورسٹی سے کیا 1977میں تحریک نظام مصطفی وتحریک ختم نبوت میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔والد گرامی حضرت قبلہ مولانا حامد علی خان نقشبندی مجددی کا 1980 میں وصال ہوا۔ان کے وصال کے بعد قبلہ قاری محمد میاںنقشبندی مجددی ،جامعہ اسلامیہ خیرالمعاد کے مہتمم اعلی مقرر ہوئے جس کے بعد آپ نے شبانہ روز دین کی خدمت کیلئے اپنے آپ کو وقف کردیا نظام مصطفی کی عملی جدوجہد کیلئے اپنے مشائخ کی بنائی ہوئی جمعیت علماءپاکستان سے وابستہ ہوگئے۔قائد ملت اسلامیہ امام انقلاب علامہ الشاہ احمد نورانی صدیقی سے وفا کا تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا اس دوران کئی نشیب وفراز آئے لیکن ایسے وقت میں جب کئی منبرومحراب کے وارث اپنی اپنی راہیں جدا کرلیں۔پروردہ آغوش پیر طریقت مجددالف ثانی کی نسبتوں کا یہ امین صدیق اکبر کے صدیقی لعل سے تا دم آخر وفا نبھائی۔نیز یہ مرد قلندر جمعیت علماءپاکستان کی سپریم کونسل کے نہ صرف ممبر تھے بلکہ عملی طور پر آپ بہت متحرک تھے۔آپ بودوباش خود نمائی سے کوسوں دور رہتے تھے آپ نہ صرف اپنے جداسلام بزرگان کی عملی تصویر تھے بلکہ کردار علم وعمل زہد وتقوی شب بیداری کے پیکر تھے خانقا ہی مصروفیات کے ساتھ ساتھ اندرون شہر میں تاجر برادری (روہتک)جو رام پور سے حضرت پیر طریقت کے ساتھ ہجرت کرکے آئے تھے۔باالخصوص ان کی عقیدتوں کا مرکز تھے اور باالعموم نہ صرف پاکسستان بلکہ بیرون پاکستان سے ہزاروں لوگوں سے آپکا تعلق اسی خانقہ اور جامعہ اسلامیہ خیرالمعاد جو آپ کی قیادت میں ترقی کی منازل طے کررہا تھا لوگوں کے دلوں میں راسخ ہو چکا تھا آپکا کردار آپ کی عظمت لوگوں کے دلوں میں اس اسطرح گھر کرچکی تھی۔ لوگ دیوانہ وار آپ سے عقیدت اور محبت کرتے تھے ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی یہ اللہ کا ولی ان کا نکاح پڑھائے اور ان کی کا جنازہ پڑھائے۔ روہتک برادری ایسے الجھے مسائل ،معاملات جنکا نتیجہ قتل وغارت تک پہنچ چکا ہوتا۔اور راقم اس بات کا شاہد ہے جو معاملات سالہا سال سے باہمی طور پر یا عدالتوں تک حل نہ ہوسکتے تھے قبلہ میاں صاحب اپنی دور اندیشی سے بڑے تحمل سے فریقین کو بھرپور موقع عطا فرماتے ان کی نرم تلخ گفتگو کے بعد یا تو اسی نشست میں یا سوچنے کاموقع دیکر دو تین نشستوں میں ایسا فیصلہ فرماتے اس در پر آنے سے پہلے جو حریف ہوتے قتل کی دھمکیاں دیتے ہوئے آتے ،قبلہ میاں صاحب کی فہم وفراست آپ کی شخصیت ، اور ایسا مناسب فیصلہ صادر فرماتے فریقین باہم شروشکر ہو کر حلیف بن کر اس در سے جاتے مساجد اور مدارس کی تعمیر اشاعت دین کا اہم ذریعہ اور سیارہ نور ہیں۔ملتان نہیں بلکہ ملک بھر میں قریبا ایک سو سے زائد ایسے ادارے جو آپ کی سرپرستی میں کام کررہے ہیں علاوہ ازیں ہزاروں کی تعداد میں یہاں سے فیض یافتہ علماءکرام ،آئمہ کرام،خطبا کرام ،موذنین ،علم دین کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں جامع مسجد غوثیہ حامدیہ ،خانقاہ حامدیہ جو نہ صرف ملتان بلکہ پاکستان بھر کی خوبصورت مساجد میں سے ایک ہے اس میں تہہ خانہ کی کھدائی ہورہی تھی راقم کا زمانہ طالب علمی تھا۔کھدائی کے بعد اگلے دن بنیادی بھر جارہی تھی طالب علموں کو اینٹس اٹھانے کا حکم ہوا۔ ہمارے ساتھ قبلہ میاں صاحب بھی اینٹیں اٹھا اٹھا کر آرہے تھے۔یہ عمل کچھ دن مسلسل جاری رہا۔ پھر مسجد کے محراب کی نقش گاری اور دیدہ زیب خوبصورتی لائق تحسین ہے۔نیز کئی بار دیکھا گیا جو محافل وغیرہ ہیں آپ کو نظر آنے دیے جاتے یا انفرادی طور پر دیے جاتے آپ ان کو جامعہ کیلئے وقف فرما دیتے۔رمضان المبارک میں ختم قرآن کی تقریبات محافل میلاد ،قل خوانی وغیرہ جو وقت آپ عطا فرمائے آپ ہمیشہ وقت کی پابندی فرماتے نیز آپ اپنی شخصیت عظمت کردار کی وجہ سے ہر محفل کی جان ہوا کرتے تھے آپکا خطاب مختصر مگر ایسا جاندار ہوتا۔سننے والوں پر سکوت طاری ہو جاتا۔
آپ نے اپنے وصال سے پندرہ روز قبل خانقاہ حامدیہ پر کام کرنے والے استاد مستری کو اپنی تربت کی نشاندہی فرمائی کہ دیکھو ہماری تربت اتنی اونچی بنانا کہ جب دو عالم کے سردار امام الانبیاءحضرت محمد مصطفی قبر میں تشریف لائیں تو میںکھڑے ہوکر ان کا استقبال کر سکوں،آپ نے اپنی آخری آرام گاہ کا انتخاب حضرت پیر دربرشاہ بخاری صاحب کے پہلو میں خود فرمایا تھا۔