
محاذ آرائی… ایم ڈی طاہر جرال
mdtahirjarral111@gmail.com
اقوام متحدہ کی بے بسی کی منہ بولتی تصویر میرا کشمیر اپنی ہی منظور شدہ قراردادوں پر عملدرآمد کرانے میں یہ عالمی ادارہ بری طرح ناکام بعض عالمی طاقتوں کی پشت پناہی کی وجہ سے بھارت جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن خراب کر کے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل چاہتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر ظالمانہ قبضے کے بعد بھارت نے اس کو برقرار رکھنے کے لئے جنوبی ایشیا میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ہونے والے مظالم کو پیچھے چھوڑ دیا ۔ اکھنڈ بھارت کے ناممکن خوابوں کی تعبیر کے لیے بھارت کسی حد تک بھی پاکستان کے خلاف جا سکتا ھے، مقبوضہ کشمیر میں حق خود ارادیت کی تحریک کو کچلنے کا خواب پورا ہونے کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف نیا محاذ کھولنے کے منصوبے بھی بنا رکھے ہیں لائن آف کنٹرول پر گزشتہ دو سال سے سیز فائر نے لائن آف کنٹرول کے ا طراف آباد کشمیریوں کو کسی حد تک معمولات زندگی پرامن طریقے سے گزارنے کا موقع فراہم کیا جس کو اب بھارت پھر سے سبو تڑ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جس کے پیش نظر اس نے اقوام متحدہ کے مبصرین کو بھی خاطر میں نہ لانے کی پالیسی اختیار کر لی ہے جس کا اعتراف اقوام متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں کیا ھے اپنی ایک رپورٹ میں اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ بھارت لائن آف کنٹرول کی نگرانی کیلئے تعینات عالمی ادارے کے فوجی مبصرین گروپ کے کام میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے جس سے گروپ کی امن کے قیام کی کوششوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین گروپ نے اقوام متحدہ کو بھیجی جانے والی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت امن مبصرین کے گروپ کو کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈی پر آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہیں دے رہا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیاھے کہ فوجی مبصرین اور بین الاقوامی عملے کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے سفر کے لیے ویزا حاصل کرنے میں بھی طویل تاخیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔مبصرین نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت نے گروپ کو صرف 11 فیلڈ سٹیشن قائم کرنے پر مجبور کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت کی طرف سے عائد کی جانے والی ان پابندیوں کی وجہ سے گروپ کے آپریشنل اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ نیز بھارت نے مارچ 2020 میں جموں اور سیالکوٹ میں ورکنگ باونڈری کراسنگ پوائنٹ کو بند کر دیا تھا جس سے مبصرین گروپ کو جموں میں اپنے فیلڈ سٹیشنوں تک پہنچنے کے لیے واہگہ بارڈر سے زیادہ لمبا راستہ استعمال کرنا پڑا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت نے فیلڈ سٹیشنوں میں اپنے فرائض انجام دینے والے فوجی مبصرین کو لاجسٹک اور راشن کی بلامعاوضہ سہولیات بھی بند کر دی ہیں اور 2013 سے اس نے رہائش اور کھانے کے راشن کی سہولیات کے عوض ہر ماہ عالمی ادارے سے لاکھوں روپے حاصل کر لی ہیں اقوام متحدہ کے مبصرین کی اس رپورٹ پر اب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کا ایکشن لیتے ہیں اور بھارت کے خلاف اقوام متحدہ کے منشور کے آرٹیکل کی خلاف ورزی پر کیا پابندی لگاتے ہیں یہ تو وقت بتائے گا لیکن تاریخ یہ بتا رہی ہے کہ اقوام متحدہ بھارت کے خلاف کچھ بھی نہیں کر سکے گا کیونکہ دنیا کے ایک دو بڑے طاقت ور ممالک بھارت کی پشت پر کھڑے ہیں جس کی وجہ سے اقوام متحدہ کی بے بسی اور لاچارگی کھل کر سامنے آئی ہے کہ وہ اپنے امن مشن کے فوجی مبصرین کو بھی آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دینے پر بھی بھارت کو آمادہ نہیں کر سکا تو پھر 5 جنوری 1949 کو حق خودارادیت کے حصول کے لئے کشمیریوں کے حق میں منظور شدہ قراردادوں پر عملدرآمد کیا کروا سکے گا اقوام متحدہ کی یہ ناکامی پوری دنیا کے لیے خاص کر مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر فلسطین افغانستان میں آج بھی امن کی کوششوں کو دھچکا لگ رہا ہے پم اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ سرنڈر کر دیں کہ بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور شدہ کسی قرارداد کو اقوام متحدہ کے منشور کی کسی شق پر عملدرآمد کرنے سے انکار کر چکا ہے لہذا اقوام متحدہ اپنے منشور کے مطابق عالمی سطح پر امن و امان کی صورتحال کر برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے اقوام متحدہ کی تشکیل نو کی جائے اور بھارت کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور شدہ قراردادوں کی دھجیاں اڑانے کی پاداش میں سخت پابندی عائد کی جائے لائن آف کنٹرول پر اگر اقوام متحدہ کے امن مبصرین آزادانہ نقل و حرکت کر کے حقائق پر مبنی رپورٹس اقوام متحدہ کو ارسال کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو پھر کیا کر سکتے ہیں کشمیریوں کو کرفیو کی پابندیوں سے نجات دلانے کیلئے اقوام متحدہ کیوں اقدامات نہیں کر سکا کیا یہ اس عالمی ادارے کی سبکی کے لیے کافی نہیں ہیں اور یہ سبکی اور شرمندگی اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے لیے بھی ھے کہ وہ ایک ایسے ادارے کے رکن ہیں جو فعال نہیں ہے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس بنا ہوا ہے