
لقمان شیخ… رْوبْرو
کہتے ہیں کہ سیاست اور صحافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے. سیاست سے صحافت نکال دی جائے تو وہ بے ذائقہ ہو جاتی ہے اسی طرح اگر صحافت کرتے ہوئے سیاسی خبریں نہ ہوں تو عوام اس میں دلچسپی نہیں لیتے. صحافت اور سیاست دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں. پنجاب کے نئے نگران وزیر اعلیٰ سید محسن رضا نقوی نے جب سے وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالا ہے، تحریک انصاف اور انکے حامی ان پر تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں.
جھنگ کے سید گھرانے سے تعلق رکھنے والے سید محسن نقوی لاہور میں پیدا ہوئے۔
انھوں نے کریسنٹ ماڈل سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور یہیں سے گریجویشن کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ میں اوہائیو یونیورسٹی چلے گئے۔
امریکہ سے انھوں نے صحافت کی ڈگری حاصل کی جس کے بعد وہ امریکی نیوز چینل سی این این میں انٹرن شپ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
سی این این نے انھیں بطور پرڈیوسر پاکستان کی کوریج کے لیے بھیجا جہاں ترقی پا کر انھوں نے کم عمری میں ہی ’ریجنل ہیڈ ساؤتھ ایشیا‘ بننے کا اعزاز حاصل کیا۔
یہ دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ ’وار آن ٹیرر‘ کا دور تھا جب 9/11 حملے کے بعد امریکی سمیت غیر ملکی افواج نے افغانستان کا رْخ کیا۔ ان دنوں محسن نقوی سی این این کے لیے رپورٹنگ کر رہے تھے اور اسی دوران انھوں نے اہم شخصیات سے تعلقات بھی بنائے۔
وہ سی این این کے ساتھ سنہ 2009 تک منسلک رہے۔
محسن نقوی نے 2009 میں محض 30 برس کی عمر میں سٹی نیوز نیٹ ورک کی بنیاد رکھی اور صحافت کے پیشے میں اپنا سکہ جمایا۔
بعد میں سٹی نیوز نیٹ ورک نے قومی سطح کی خبروں کے لیے 24 نیوز ڈیجیٹل، فیصل آباد کے لیے سٹی 41، جنوبی پنجاب کے لیے روہی ٹی وی کراچی کے لیے سٹی 21 اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے ’یو کے 44‘ نامی چینلز بنائے۔
اسی ادارے نے لاہور سے ایک مقامی روزنامے ’ڈیلی سٹی 42‘ کا بھی آغاز کیا۔
میڈیا چینل کے مالک ہونے کے طور پر ان کی شہرت ایک ایسے شخص کی ہے جو اپنے ساتھ کام کرنے والوں کا خیال رکھتے ہیں اور انھیں بہتر مواقع دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
محسن نقوی مرحوم ایس ایس پی اشرف مارتھ کے داماد، چوہدری پرویز الہیٰ کی بھانجی کے شوہراور مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت کے بیٹے سالک حسین کے ہم زلف بھی ہیں۔
محسن نقوی پر یہ الزام لگانا کہ انکا سیاست سے تعلق نہیں ہے ایک مذاق کے مترادف ہے. وہ سیاسی رپورٹنگ کرتے رہے ہیں اور سیاست دانوں سے انکے اچھے تعلقات ہیں. الیکشن کمیشن نے انکی بطور نگران وزیر اعلی تعیناتی میرٹ پر کی ہے. تحریک انصاف اور انکے حامی بلا وجہ انکے خلاف مہم چلا رہے ہیں. تحریک انصاف اور انکے حامیوں کو نگران وزیر اعلیٰ پر اعتماد کرنا چاہیے کہ وہ آئین اور قانون کے مطابق اپنے فرائض انجام دیں گے اور 90 دن کے اندر انتخابات کروائیں گے. پاکستان تحریک انصاف نے پہلے تو اپنی منتخب حکومتوں کو خود گرایا اور اب انھیں نگران وزیر اعلیٰ بھی اپنا چاہیے. یار لوگوں کا کہنا ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال کے پیش نظر انتخابات وقت پر نہیں ہو سکتے. انتخابات جب بھی ہونگے پورے ملک میں ایک ہی بار ہونگے. یہ نہیں ہو گا پہلے ایک اسمبلی پھر دوسری صوبائی اسمبلی کے الگ الگ انتخابات ہوں. وفاقی حکومت یا الیکشن کمیشن سپریم کورٹ سے یہ استدعا کر سکتے ہیں معاشی ایمرجنسی لگا کر ملکی مفاد کے لئے عام انتخابات اگلے سال کروائیں جائیں. اس دوران نگران حکومتوں کا دورانیہ بھی بڑھ جائے گا. دوسری طرف عمران خان کے لوگ ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر نکل آئیں ہیں اور ہر حال میں انتخابات کروانے کے درپے ہیں. قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کو منہ کی کھانی پڑی ہے. پہلے ممبران قومی اسمبلی استعفے قبول نہ ہونے پر شور مچا رہے تھے اور استعفے قبول ہونے پر سراپا احتجاج ہیں. لگتا یوں ہے کہ عمران خان اپنے فیصلوں پر پچھتا رہے ہیں.
وہ اداروں کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں. پہلے وہ اپنی حکومت گرانے کا الزام امریکہ پر لگاتے تھے اور اب انکی نظر میں محسن رضا نقوی وہ واحد شخصیت ہیں جو رجیم چینج کے ذمہ دار ہیں. ملک میں احتجاج اور انتشار کی سیاست کو تقویت دینے تحریک انصاف کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی. انھیں چاہیے کہ وہ اداروں اور حکومت سے مذاکرات کر کے عام انتخابات کی راہ ہموار کریں. بلاشبہ پاکستان تحریک انصاف ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اور اسکی موجودگی یا اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا. انکا ایک بڑا ووٹ بینک ہے مگر آئے روز سڑکوں پر آ جانا اب انکے ووٹرز کے لئے بھی قابل قبول نہیں. ملک میں مہنگائی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے. سفید پوش لوگوں کو فاقے کرنا پڑ رہے ہیں. دو وقت کی روٹی میسر نہیں. ایسے میں عوام دو وقت کی روٹی کمائیں یا آئے دن احتجاج کرتے رہیں. پاکستان تحریک انصاف کو احتجاج کے بجائے حکومت کے ساتھ ٹیبل ٹاک کرنی چاہیے اور انتخابات کے لئے کوئی درمیانی راستہ نکالنا چاہیے