جمعرات ، 3 رجب المرجب 1444ھ، 26 جنوری 2023ئ
پنجاب میں حکومتی تبدیلی کے ساتھ تقرر و تبادلوں کی نئی لہر
پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
والا مرزا غالب کا مشہور شعر تو سب نے سُنا ہو گا۔ ویسے تو ان کی یہ ساری غزل ہی حکومت پنجاب کی تبدیلی کے بعد بیورو کریسی، عدالتی معاونین اور پولیس افسران کے تبادلوں کے اٹھنے والے سونامیوں کے لیے لکھی محسوس ہوتی ہے۔ خدا جانے ہمارے حکمرانوں کو کب سمجھ آئے گی کہ سرکاری افسران کی اکڑ توڑنا تو جائز ہے تاکہ وہ عوام کو اپنا غلام نہ سمجھیں مگر ان کو بلاجواز کبھی یہاں کبھی وہاں منتقل کرنا اور وہ بھی مسلسل تبدیلی کسی صورت میں قطعاً جائز نہیں۔ حکومتی ذمہ داریاں اپنی جگہ ،سرکاری ملازمین کی ذمہ داریاں اپنی جگہ ۔ تبادلوں کی اس لہر میں خدا جانے کتنے اچھے افسر بھی کام نہیں کر پاتے۔ ابھی ایک حکومت ان کی تقرری کا آرڈر جاری کرتی ہے فوراً دوسری حکومت آتے ہی انہیں تبدیل کر دیتی ہے۔خاص طور پر پچھلی پنجاب حکومت کے دور میں پولیس اور دوسرے سرکاری افسران میں تبادلوں کی جو ہفتہ وار قسط وار ٹی وی سیریز کی طرح چلی اس سے تو بہت سے افسران نے دلجمعی سے کام کرنا ہی چھوڑ دیا وہ ہمہ وقت تبادلے کے آرڈر کا انتظار کرتے رہتے تھے۔ ابھی قائم مقام حکومت کے آتے ہی ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سمیت 97 لاءآفیسرز کو ایک بینی و دوگوش چلتا کیا گیا ہے۔ اسی طرح پولیس میں بھی نئے آئی جی پنجاب نئے سی سی پی او لاہور کی انٹری ہوئی ہے اور پرانی حکومت کے ناک کے بال بنے افسر فارغ ہو گئے ہیں۔ بیورو کریسی میں دیکھ لیں چیف سیکرٹری سے لے کر وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری تک واپسی کی راہ لے چکے ہیں۔ اور بھی کئی زیر دام آنے والے ہیں۔ خدارا حکومتی اداروں کو اس اکھاڑ پچھاڑ سے آزاد کرکے اطمینان سے کام کرنے دیا جائے انہیں پارٹی بازی سے دور رکھا جائے تاکہ وہ سیاسی دباﺅ سے آزاد ہو کر کام کریں۔ ہاں اگر کوئی اس کے بعد بھی عوام کی زندگی عذاب بناتا اور سیاست کرتا نظر آئے تو اسے بے شک کوڑے دان میں پھینک دیں کسی کو ملال نہ ہو گا۔
٭٭٭٭
معمر امریکی خاتون نے معاہدے کے تحت بیمار شوہر کو قتل کر دیا
خدا جانے یہ محبت کی انتہا ہے یا اس کا نام وفاداری ہے جو کچھ بھی ہو یہ اپنے انداز کی انوکھی کہانی ہے۔ 77 سالہ بیمار شخص خود اپنی 76 سالہ بیوی کو اجازت دیتا ہے کہ اگر وہ بیماری سے صحت یاب نہیں ہوتا تو وہ اسے اس اذیت سے چھٹکارہ دلانے کے لیے اپنے ہاتھوں سے موت کی وادی میں دھکیل دے۔ اس وفا شعار بیوی نے ایسا ہی کر دیا۔ قانون کی نظر میں تو یہ جرم ہے۔ مگر محبت اور وفا کی دنیا میں اس کہانی نے اپنی جگہ بنا لی۔
یورپ میں پلی بڑھی یہ خاتون بخوبی جانتی ہوں گی کہ وہاں ایسے کام کی سزا کیا ہے وہاں کسی غیر قانونی سرگرمی کو تحفظ نہیں۔ مگر دل کا کیا کریں صاحب ، یہ جس پر آتا ہے اس کا ہر کہا حکم کی حیثیت رکھتا ہے۔ محبت کرنے والے ایک دوسرے کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے اب بے شک یہ معمر خاتون
محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تیری محفل میں لیکن ہم نہ ہونگے
والا دکھ اپنی زندگی کے باقی ایام میں سینے سے لگائے رات دن رومال اور تکیہ بھگوتی رہیں ۔ مگر دلی طور پر مطمئن ہوں گی کہ اس نے اپنے محبوب کو ہر رنج و غم دکھ درد اور تکلیف سے نجات دلا دی۔ پولیس کے بقول اس خاتون نے بیمار شوہر کو اسکے حکم کے مطابق کہہ لیں یا التجا پر سر میں گولی مار کر ہلاک کیا۔ اس کے بعد خود بھی خودکشی کرنا چاہی مگر نہ کر سکی۔ سچ کہا جاتا ہے اپنے ہاتھوں اپنی جان لینا بہت مشکل ہے۔ ہاں کسی کے لیے جان دینی پڑے تو آسان ہے۔ اب اس معمر خاتون کو گرفتار کر کے جیل بھیجا جائے گا۔ اس جرم میں کہ اس نے معاہدے کے تحت یعنی شوہر کی رضامندی سے اسے ہلاک کردیا۔ مقدمہ بھی چلے گا۔ اب اس صدمے کے بعد دیکھتے ہیں یہ معمر خاتون اور کتنے دن جی لیتی ہے۔
٭٭٭٭
نگراں وزیر اعلیٰ کے خلاف عمران خان اور پرویز الٰہی کا احتجاج جاری رکھنے پر اتفاق
نجانے ہماری سیاست میں بلوغت کب آئے گی۔ ہم کب اس سیاسی نر گسیت سے جان چھڑا پائیں گے، جس میں ہر جگہ ہمیں اپنی ذات کے سوا کوئی اور نظر نہیں آتا۔ ہم کب تک اس اُلجھن کہہ لیں یا ذہنی خلجان کا شکار رہیں گے کہ اگر ہم نہیں کھیلے تو کسی اور کو بھی نہیں کھیلنے دیں گے۔ اسی میں میں کی گردان اور تکرار کی وجہ سے ہم بہت سے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے تقرر کے مسئلے پر بھی جس طرح ایک بار پھر ہماری سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو دعوت مبازرت دیتی نظر آ رہی ہیں۔ اس سے تو یہی لگ رہا ہے کہ پنجاب میں پیدا شدہ بدامنی کے شعلوں کو بتدریج دہکتے ہوئے الاﺅ میں تبدیل کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ پی ٹی آئی والے ہوں یا مسلم لیگ (ن) والے۔ دونوں میں سے کوئی بھی نرمی دکھانے کو تیار نہیں ہو رہا۔ اِدھر حالت یہ ہے کہ میڈیا پر بھی سیاسی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ عمران خان اور چودھری پرویز الٰہی نئے وزیر اعلیٰ کے تقرر کے خلاف احتجاج جاری رکھنے پر متفق ہیں تو اس پر کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔ حالانکہ یہی پرویز الٰہی جب عمران خان کے چہیتے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو ہٹانا چاہتے تھے اس وقت تو خان صاحب کے نہ ماننے پرپرویز الٰہی نے کوئی احتجاجی پروگرام نہیں دیا۔ مگر اس وقت وہ خاصے سرگرم ہیں ، شاید اسی کا نام سیاست ہے۔ اب یہ گلی کوچوں کی لڑائی جلد ہی عدالتوں کا رُخ کرنے والی ہے اور وہاں قانونی گھمسان کارن پڑے گا۔ اتنی دیر میں نئے الیکشن کا اعلان آ جائے گا اور پھر وہی ٹائیں ٹائیں فش ہو گا۔ بس شرط یہ ہے کہ کوئی درمیان میں آ کر ڈنڈی نہ مار جائے۔ اب ہم کسی سے عقل کے ناخن لینے کا مطالبہ تو کرنے سے رہے۔
٭٭٭٭
چھپن چھپائی کھیلتے ہوئے بنگلہ دیشی بچہ ملائیشیا پہنچ گیا
اب یہ بچہ تو اس وقت کو کوس رہا ہو گا جب وہ دوستوں کے ساتھ چھپن چھپائی کھیلتے ہوئے چٹاگانگ کی بندرگاہ کے علاقے میں موجود کنٹینر میں چھپ گیا تھا۔ پھر اس کے بعد وہی ہوا جو ہم پڑھ رہے ہیں۔ وہ کسی وجہ سے کنٹینر میں پھنس کر رہ گیا اور کرینوں نے وہ کنٹینر اٹھا کر بحری جہاز پر لوڈ کیا جو بنگلہ دیش سے نکلا تو ملائیشیا پہنچ کر لنگر انداز ہوا۔اس چار یا پانچ دن میں خدا جانے اس جان ناتواں پر کیا کچھ گزری ہو گی۔ شکر ہے کہ موسم سرما ہے۔ ورنہ بھوک سے زیادہ پیاس کی شدت سے جان کے لالے پڑ جاتے۔ جب اس بچے کو وہاں سے برآمد کیا گیا ہو گا تو اسے کتنی حیرت ہوئی ہو گی کہ وہ اب بنگلہ دیش میں نہیں ملائیشیا میں ہے۔ اگر نوجوان ہوتا تو کیا معلوم وہ ازخود ملنے والے نئے ملک میں شہریت کی درخواست ہی دے ڈالتا۔ کیونکہ معاشی طور پر ملائیشیا بہرحال بنگلہ دیش سے بہت بہتر ہے۔ مگر یہ بچہ تو ماں باپ کو یاد کر کے روتا غل مچاتا گھر جانے کی ضد کرتا رہا ہو گا پولیس کو سامنے دیکھ کر۔ اس نے تو یہی رٹ لگائی ہو گی کہ میں نے واپس جانا ہے۔ مجھے میرے گھر پہنچا دو۔ بہرحال یہ ایک دلچسپ صورتحال رہی ہو گی کہ چند ہی دن میں ایک بچہ بنگالی سے ملائیشین بن گیا۔ اب اس کے باقی دوستوں کو افسوس ہو رہا ہو گا کہ وہ کیوں نہیں اس کنٹینر میں جا چُھپے۔ مفت میں سمندر کی سیر بھی ہو جاتی اور ملائیشیا کو دیکھنے کا موقع بھی ملتا، وہاں کی انتظامیہ کی مہمان نوازی سے بھی لطف اندوز ہوتے اور واپس آ کر دوست واحباب کو اپنے قصے سُناتے۔
٭٭٭٭