اہلِ سیاست و اقتدار کا عوام کو زندہ درگور کرنے کا فیصلہ
پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین ورچوئل مذاکرات میں عالمی مالیاتی ادارے کو آگاہ کر دیا گیا ہے کہ ملک کے اندر ایکسچینج کی قدر کو فری فلوٹ (آزادانہ) کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس پر بدھ 25 جنوری سے عملدرآمد شروع ہو چکا ہے۔ اس سلسلہ میں وزارت خزانہ کے ذرائع نے بتایا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین ہونیوالے ورچوئل مذاکرات میں تمام اختلافی امور پر بات کی گئی۔ اب رسمی مشن کی پاکستان آمد کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کے تین اہم مطالبات رہے ہیں۔ ایک یہ کہ زرمبادلہ کی قدر کا آزادانہ تعین ہو‘ دوسرے یہ کہ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھائے جائیں اور تیسرے یہ کہ جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس بڑھانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ ذرائع نے اس امر کی تصدیق کی کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ان تینوں مطالبات پر عملدرآمد کا آغاز کردیا ہے۔
ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان کے مطابق حکومت نے ڈالر کی قیمت کنٹرول کرنے کے بجائے مارکیٹ بیسڈ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کیلئے ای کیپ کے اجلاس میں حکومت نے ڈالر کو ”فری فلوٹ“ کرنے کا گرین سگنل دے دیا ہے جو آئی ایم ایف کی لازمی شرط تھی۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کرنے کیلئے منی بجٹ لانے کا فیصلہ کیا گیاہے جس کے مسودے پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ اسکے تحت متعدد لگژری اشیاءپر اضافی ڈیوٹی عائد کی جارہی ہے، 70 ارب روپے کے لگ بھگ اشیاءپر دی جانیوالی ٹیکس کی چھوٹ ختم کی جارہی ہے اور نان فائلرز کی بنکنگ ٹرانزکشن پر وِد ہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ اسی طرح یومیہ پچاس ہزار روپے سے زیادہ کی بنکنگ ٹرانزکشن پر بھی وِد ہولڈنگ ٹیکس عائد ہو سکتا ہے۔ اس سے 45 سے 50 ارب روپے کی آمدن کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان کے چیئرمین کی گزشتہ روز ڈپٹی گورنر سٹیٹ بنک ڈاکٹر عنایت حسین سے ملاقات ہوئی جس میں آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق ڈالر کو فری فلوٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ دیگر شرائط پوری کرنے کیلئے بھی کام کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کے تحت ملک میں جلد ہی گیس مہنگی کر دی جائیگی جبکہ پٹرول پر لیوی بھی بڑھائی جا رہی ہے۔ یہ اضافہ یکم جولائی 2022ءسے ہوگا۔ وفاقی کابینہ گیس کے نرخوں میں اضافے کی منظوری دیگی۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق گیس کے شعبے کا گردشی قرضہ بھی ختم کیا جارہا ہے اور بجلی کے نرخوں کے حوالے سے بھی جلد اقدامات کئے جائیں گے۔ آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ ای ایس سی، صنعت اور ٹیوب ویلز کو بجلی کے بلوں میں دی گئی سبسڈی ختم کر دی جائے۔ ایک نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے ڈالر کو فری فلوٹ کرنے کے فیصلہ کے بعد فاریکس مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت فروخت 255 روپے تک پہنچ گئی ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کا نرخ 253 روپے ہو گیا ہے۔ علاوہ ازیں کریڈٹ کارڈ کیلئے ڈالر کی سیٹلمنٹ قیمت 256 روپے مقرر کی جارہی ہے اور ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن نے ڈالر ریٹ کیپ ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
آئی ایم ایف کی شرائط پر وفاقی حکومت کی جانب سے کئے جانیوالے ان فیصلوں سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ اس عالمی مالیاتی ادارے کا آسیب ملک کی فضاﺅں پر طاری ہو چکا ہے اور ملکی معیشت کے علاوہ ہماری آزادی اور خودمختاری کو بھی اپنے شکنجوں میں جکڑ چکا ہے۔ ان مجوزہ فیصلوں پر عملدرآمد سے بے بس و مجبور عوام کی کیا درگت بننی ہے‘ اس کا تصور کرنا بھی محال نظر آتا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف تو آئی ایم ایف کی شرائط کے تابع ان مجوزہ فیصلوں کو ملک کو بچانے سے تعبیر کر رہے ہیں جن کے بقول وہ اپنی سیاسی کمائی قربان کرکے ملک بچا رہے ہیں مگر فی الحقیقت ان فیصلوں پر عملدرآمد سے ملک پتھر کے زمانے کی جانب واپس جاتا محسوس ہو رہا ہے جس میں عوام کیلئے اپنی ضروریات زندگی اور روزمرہ استعمال کی اشیاءخریدنے کی بھی سکت نہیں رہے گی اور آسودہ زندگی گزارنا تو کجا‘ ان کیلئے تنفس کا سلسلہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہو جائیگا۔ اس صورت میں راندہ¿ درگاہ عوام کے پاس دو ہی راستے بچیں گے جس میں ایک راستہ شہر خموشاں اور دوسرا راستہ جرائم پیشہ گناہوں کی زندگی کی جانب نکلتا ہے۔ چنانچہ بخوبی تصور کیا جا سکتا ہے کہ اہل اقتدار ملک کو بچانے کی کون سی فضا بنا رہے ہیں جبکہ آئی ایم ایف کی ہر ناروا شرط کو سرِ تسلیم خم کرکے قبول کرنے کا سلسلہ اب کہیں رکتا نظر نہیں آرہا بلکہ یہ امریکی ”ڈومور“ جیسی آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن ہے جو ایک ایٹمی طاقت کے حامل آزاد اور خودمختار ملک کو دی جا رہی ہے۔ افسوس صد افسوس کہ اہل سیاست و اقتدار آئی ایم ایف کے آگے سر جھکائے کھڑے ہیں اور بے بس عوام کی قربانی دیئے چلے جا رہے ہیں۔
سابق حکمران پی ٹی آئی کی قیادت نے بھی آئی ایم ایف کے پاس کشکول لے کر جانے پر خودکشی کو ترجیح دینے کے دعوے کرتے ہوئے اپنے اقتدار کے آغاز ہی میں آئی ایم ایف کو ان داتا تسلیم کرلیا اور اپنے اقتدار کے ساڑھے تین سال کے دوران تین منی بجٹ لا کر اور سالانہ میزانیوں میں عوام پر براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار کرکے انہیں زندگی کا بھرم قائم رکھنے کیلئے تگنی کا ناچ ناچنے پر مجبور کردیا۔ اسکے علاوہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت ہی بجلی‘ گیس‘ پٹرولیم مصنوعات‘ ادویات اور دیگر اشیاءکے نرخ تواتر کے ساتھ بڑھائے جاتے رہے۔ اسی دور میں ڈالر نے ایسی اڑان بھری کہ اب اسکے نیچے آنے کا تصور ہی ناپید ہو گیا ہے۔ سابقہ دور میں عوام پر مہنگائی کے علاوہ بے روزگاری کے تیر بھی برسائے گئے جبکہ عوام پر مصنوعی مہنگائی مسلط کرنے کے عادی ذخیرہ اندوزوں اور آٹا‘ چینی مافیاز نے اپنی من مانیوں سے ملک کو اندھیر نگری بنا دیا۔
سخت عوامی اضطراب کا باعث بننے والے یہی وہ حالات تھے جو بالآخر پی ٹی آئی حکومت کے خاتمہ پر منتج ہوئے اور حکومت مخالف اپوزیشن اتحاد کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا جبکہ ان جماعتوں کی قیادتوں نے بھی عوام کو غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے شکنجے سے نکالنے کے بلند بانگ دعوﺅں کو اپنے اقتدار کی سیڑھی بنایا اور یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ اپنی بہترین معاشی ٹیم کے ذریعے قومی معیشت کو چمٹی آکاس بیل اور عوام کو غربت و مہنگائی کے دلدل سے خلاصی دلائیں گے۔ عوام کیلئے اس سے بڑی اذیت اور کیا ہو سکتی ہے کہ اتحادیوں کی حکومت نے انکی دادرسی کے بجائے سارا زور آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی بحالی کیلئے لگانا شروع کر دیا جس کے نتیجہ میں عوام پر مسلط ہونیوالی مہنگائی کی کوئی حد ہی نہ رہی اور وہ مرے کو مارے شاہ مدار کی عملی تصور بن کر مہنگائی کے اٹھتے سونامیوں کا سامنا کرنے لگے۔ موجودہ حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے آٹھ ماہ کے دوران پٹرولیم مصنوعات اور بجلی‘ گیس‘ ادویات کے نرخ عملاً عام آدمی کی پہنچ سے باہر کر دیئے ہیں جبکہ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے موسم سرما میں بھی عوام کی زندگیاں اجیرن بنا دی ہیں۔ اسکے برعکس حکمران اشرافیہ طبقات کی مراعات اور اللے تللوں میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہی ہوا ہے جو اپنے حکومتی‘ ریاستی اور ادارہ جاتی اختیارات عوام کی بہتری کے بجائے اپنی آسودگی کیلئے ہی بروئے کار لاتے ہیں۔
اب آئی ایم ایف کی شرائط کے تابع حکمران اتحاد کی جانب سے منی بجٹ لانے اور نچلے طبقے کے معمولی سے ریلیف پر مبنی سبسڈیز کا بھی خاتمہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ڈالر کو آسمانوں سے بھی آگے جستیں بھرنے کیلئے آزاد چھوڑ دیا گیا ہے تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ راندہ¿ درگاہ عوام جسم اور تنفس کا سلسلہ برقرار رکھنے کی خاطر جائز‘ ناجائز کیا کیا جتن کرینگے جبکہ ملکی معیشت پر مسلط ہونیوالا آئی ایم ایف کا عذاب اب وقتی طور پر بھی ٹلتا نظر نہیں آرہا۔ گزشتہ ہفتے ایک حکومتی عہدیدار نے بے بسی پر مبنی اپنی اس سوچ کا اظہار کیا تھا کہ مراعات یافتہ اشرافیہ طبقات اپنی منجمد رکھی گئی رقوم باہر لے آئیں تو ملکی معیشت سنبھل سکتی ہے اور آئی ایم ایف سے نجات مل سکتی ہے مگر ”اے بسا آرزو کہ خاک شدہ“ اشرافیہ طبقات کا دھن دولت باہر نکلوانے کیلئے خود حکومت ہی بے بس ہے تو رضا کارانہ طور پر کون اپنی آسائشات و مراعات کی قربانی دیگا۔ اہل اقتدار کا بس تو بے بس و مجبور عوام پر ہی چلتا ہے جو اب اپنے بے وسیلہ ہونے کی سزا اپنی زندگیوں کے عوض ہی بھگتیں گے۔ اہل اقتدار کو بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کے یہ الفاظ بہرصورت پیش نظر رکھنے چاہئیں کہ جب کوئی زندہ معاشرہ قبرستان میں تبدیل کردیا جائے تو اس پر مجاور ہی حکمرانی کرتے ہیں۔