
راقم یقینا خود تعارف کا محتاج ہے کہ ایک ایسے عظیم قلم کار کی تصنیف کو متعارف کروائے جو نصف صدی سے بھی زائد اردو صحافت کے افق پر ایک آفتاب کی مانند اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ روشن ہے۔ بھلا سورج کو چراغ کون دکھائے؟ میری مراد ’اردو ڈائجسٹ‘ کے مدیر اعلیٰ الطاف حسن قریشی کی حال ہی میں چھپنے والی کتاب ’مشرقی پاکستان: ٹوٹا ہوا تارا‘ سے ہے۔ ایک ملاقات کے دوران مصنف نے راقم کو یہ کتاب دست بدست عنایت فرمائی، میرے نام اور دستخط کے علاوہ تعریفی واعترافی کلمات بھی تحریر کیے کہ مذکورہ کتاب کا عنوان اس ناچیز نے تجویز کیا تھا۔ سانحہ مشرقی پاکستان جیسے اندوہناک ، نازک، حساس اور نہایت اہم سیاسی موضوع پر لکھی گئی یہ کتاب، نایاب ذاتی خطوط، تصاویر، نہایت اہم سیاسی رہنماو¿ں کے انٹرویوز سے مزین ہے۔ یہ کتاب مصنف کی تقریباً چار عشروں پر مشتمل ان تحریروں کا مجموعہ ہے جو ماہنامہ ’اردو ڈائجسٹ‘ اور ہفت روزہ ’زندگی‘ میں شائع ہوئیں۔ اس کتاب کو مرتب کرنے میں مصنف کے قابل فخر پوتے ایقان حسن قریشی نے شب و روز محنت کی۔ کتابی صورت میں انھیں مرتب کرنے کا مقصد نئی نسل کو اپنے وسیع تجربات، تجزیات اور تاثرات کی روشنی میں مستقبل کی ایسی صورت گری کے لیے تیار کرنا ہے جو ناامیدی اور یاس سے نکل کر امید وآس کے نئے زمان و مکاں کی جستجو اور تلاش میں یوں نکل کھڑی ہو کہ اسے یقین محکم ہوجائے کہ ایک ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل بھی بن سکتا ہے۔
موضوعات کے اعتبار سے اس کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا حصہ دسمبر 1970ءمیں پاکستان کے پہلے عام انتخابات اور ان سے جڑے بعد کے تلخ سیاسی حقائق کو بیان کرتا ہے۔ دوسرے حصہ میں مصنف ان انتخابات کے نتیجہ میں جنم لینے والی بے حسی و ننگ انسانیت سے پُر داستان بلکہ خون آشام واقعات کا نقشہ و تجزیہ پیش کرتا ہے۔کتاب کے تیسرے حصہ میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد سے لے کر بیسویں صدی کے اختتام تک بیتے دنوں کے سیاسی و معاشرتی واقعات کی لمحہ بہ لمحہ نثری منظر کشی کی گئی ہے۔ مصنف کا ان تمام واقعات کا عینی شاہد یا چشم دیدگواہ ہونا اس کتاب کی ضرورت اوراہمیت کو دو چند کردیتا ہے۔
عنوان سے صاف ظاہر ہے کہ کتاب کا مرکزی خیال تو اس بدترین سانحہ سے سبق سیکھنا ہے جس کے نتیجہ میں ہمارا پیارا ملک دولخت ہوا۔ ان وجوہ اور اسباب کا جائزہ لینا ہے جن کی بنا پر یہ سانحہ رونما ہوا۔ مصنف بخوبی واقف ہے کہ یہ جان جوکھوں کا کام کنارے پر بیٹھ کر موجیں گن کر نہیں کیا جاسکتا تھا بلکہ سمندر کی گہرائی میں اتر کر موجوں سے لڑتے ہوئے اس ڈوبے ہوئے سفینہ کی ایک ایک شہادت کو اپنے ہاتھوں سے تنکا تنکا کرکے جمع کرنے کا کام تھا۔ مصنف نے یہ کام نہایت جانفشانی سے کیا۔ سانحہ پاکستان کے دو مرکزی کردار شیخ مجیب الرحمن اور جنرل یحییٰ خان سے تفصیلی انٹرویوز اس بات کا کڑا ثبوت ہیں۔ درجن بھر سے زائد دیگر اہم شخصیات سے انٹرویوز اور ملاقات کا احوال اس کتاب کا ایک اہم حصہ ہے۔ اسی طرح سیاستدان، سیاسی کارکن، اساتذہ، طلبہ و طالبات ، سول و فوجی افسران، اور صحافتی دوست احباب سمیت سول سوسائٹی کے تقریباً تمام نمائندوںسے ملاقاتوں کی روداد بھی اس کتاب کا جزو لا ینفک ہے۔
مصنف کے بقول سیاستدانوں کی انا پرستی و بے حسی، فوجی حکمرانوں کی بے خبری اور بے صبری، خفیہ اداروں کی حقائق سے دوری اور فہم و فراست سے تہی دامنی نے حالات اس قدر بگاڑ دیے کہ معاملات بات چیت کی بجائے طاقت کے اندھا دھند استعمال تک جا پہنچی، اور نتیجہ بھائی کی بھائی سے جدائی کی صورت برآمد ہوا۔ اس پر جتنا کف افسوس ملا جائے کم ہے۔ حالانکہ مصنف نے سانحہ مشرقی پاکستان سے بہت پہلے اپنے تاریخی مضمون ’محبت کا زم زم بہہ رہا ہے‘ میں شیخ مجیب الرحمن کے پیش کردہ چھ نکات کا سیاسی تجزیہ کرتے ہوئے آنے والے خطرے کی نشاندہی پہلے سے ہی کردی تھی۔ اسی طرح مصنف نے اگرتلہ سازش کیس کی حقیقت کا سراغ بھی بروقت لگالیا تھا۔ فیلڈ مارشل صدر ایوب خان اور متحدہ حزب اختلاف کے درمیان مذاکرات کی اندرونی ’ان کہی کہانی‘ کو بھی اردو ڈائجسٹ میں شائع کرکے طشت ازبام کیا تھا۔ نیز ایسے اسباب اور واقعات کا بروقت پتا چلا لیا تھا کہ جن کے نتیجہ میں یہ سانحہ رونما ہوا۔ گویا اگر عقل و دانش، فہم و فراست اور دور اندیشی سے کام لیا جاتا تو سانحہ مشرقی پاکستان کو روکا جاسکتا تھا۔ ممکنہ سیاسی زلزلہ و سونامی کی پیشگی اطلاع تو مصنف کے علمی و تحقیقی اور بے لاگ تجزیاتی تبصروں و تحریروں نے کردی تھی مگر افسوس کہ نگاہ بینا سے عاری اور عقل سے پیدل حاکم وقت اور اپنی انا کے خول میں بند سیاسی زعماءان خطروں کو جاننے اور بھانپنے کے باوجود کچھ نہ کرسکے یا کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے تھے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کتاب کا مخاطب کون ہے؟ یا کسے یہ کتاب پڑھنی چاہیے؟ میرا جواب یہ ہے کہ یہ کتاب اپنے اندر وسیع، ہمہ جہت، اور متنوع احساسات اور خیالات سمیٹے ہوئے ہے۔ اس کتاب کا مخاطب ہر دردمند پاکستانی ہے مگر علمی و تحقیقی حوالہ سے بات کی جائے تو نوجوان نسل کے وہ نمائندے جو سماجی و معاشرتی علوم سے وابستہ ہیں اس کتاب کا ضرور مطالعہ کریں۔ ایسے افراد جن کے ہاتھ میں ملک کی عنان اقتدار ہے، جو ایوان اقتدار کی غلام گردشوں کی بھول بھلیوں میں کہیں گم ہیں، تعلیم، دفاع، خارجہ، داخلہ، اور سول سروسز سے منسلک وہ افراد اور ادارے جو قومی پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، ان کے لیے اس کتاب میں سیکھنے کے لیے بہت اہم مواد موجود ہے۔ اس کتاب میں کمزوری یا خامی ڈھونڈنا، جوئے شیر لانے کے مترادف ہے البتہ کتاب کی ضخامت پر رائے دی جاسکتی ہے۔ کتاب کی اوریجنل منصوبہ بندی کو بروئے کار لاتے ہوئے، جس کا ذکر کتاب میں موجود ہے، مناسب ہو کہ آئندہ یہ کتاب کم ازکم تین جلدوں میں ہی شائع ہو۔ کتاب کے تین اہم حصے علیحدہ علیحدہ کتابوں کا موضوع بن سکتے ہیں۔ اسی طرح بیرونی پرت کے کناروں پر سنہری رنگ کے نقش و نگار کی بجائے انھیں سادہ اور سفید رہنے دیا جائے تو زیادہ مناسب رہے گا۔