
سابق وفاقی وزیر فواد چودھری گرفتار ہوئے ہیں۔ ان سے پہلے پاکستان تحریکِ انصاف کے اعظم سواتی اور شہباز گل بھی گرفتار ہوئے ہیں۔ سیاسی لوگوں کی یہ گرفتاریاں یقیناً افسوسناک ہیں لیکن اس کی ذمہ داری بھی ان لوگوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما اگر اگر ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کریں گے اور پھر اس نامناسب گفتگو کا سلسلہ نہ صرف جاری رہے بلکہ اس میں شدت آتی جائے ریاستی اداروں کو ہر وقت متنازع بنانے کی کوشش ہوتی رہے اور عوام میں ہر لمحہ نفرت پھیلانے، غلط بیانی کرنے اور لوگوں کے جذبات کو بھڑکانے کا سلسلہ جاری رہے، اصلاح کا کوئی پہلو نظر نہ آئے، کوئی صورت دکھائی نہ دے، تحمل مزاجی کا کوئی راستہ نظر نہ آئے تو اس کا انجام کیا ہو گا۔ اختتام یہی ہوگا جو اعظم سواتی کے ساتھ ہوا جو شہباز گل کے ساتھ ہوا۔ جو کچھ پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلزپارٹی کے سیاستدانوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔ سیاست دان اس حالت کے ذمہ دار خود ہیں اگر آج ملک میں افراتفری ہے، نفرت ہے سیاسی انتشار ہے تو اس کی ذمہ داری کسی بیرونی طاقت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ مسائل کے ذمہ دار ہمارے اپنے ہی رہنما ہیں جہاں تک تعلق فواد چوہدری کی گرفتاری کا ہے ذاتی حیثیت میں مجھے اس کا دکھ بھی ہے کیونکہ وہ صاف اور کھلی بات کرتے ہیں، گفتگو کے ذریعے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اچھی بات چیت کی طاقت رکھتے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں میں انکے اچھے روابط بھی موجود ہیں ان سب کے ہوتے ہوئے بھی اگر وہ نامناسب الفاظ استعمال کریں تو یہ دکھ کی بات ہے اور ہر وقت دوسروں کو برا بھلا کہنا کبھی بھی کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ پاکستان میں تمام لوگوں کا مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رہا ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے شاید کوئی جماعت نہ بدلی ہو لیکن بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے بہت سی جماعتیں بدلی ہیں۔ ہر نئے انتخابات میں کسی نئی جماعت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس لیے ہماری اخلاقی اقدار اور سیاسی سوچ تو وہ ہرگز نہیں ہے یا سیاست کا ماضی وہ نہیں ہے کہ ہر وقت دوسروں پر انگلیاں اٹھاتے رہیں۔ فواد چودھری کی گرفتاری اور اس کا پس منظر دیکھیں یہ واقعہ آپ کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے اگر آپ آپ سوچنا چاہیں تو اس سے بہتر چیز سامنے آسکتی ہیں لیکن اگر آپ یہ سمجھیں کہ جو آپ سوچتے ہیں جو آپ کرتے ہیں وہی درست ہے ایسے ہی آگے بڑھتے رہیں گے تو معاملات بہتری کی طرف نہیں جائیں گے۔ مختلف عدالتوں میں چکر لکھتے رہیں گے، ضمانتیں ہوتی رہیں گی، مقدمات بنتے رہیں گے پاکستان کا نقصان ہوتا رہے گا۔ اگر سیاستدانوں نے یہ طے کرلیا ہے کہ انہوں نے کوئی بہتر صورت نہیں نکالنی، مسائل حل نہیں کرنے تو پھر یاد رکھیں، جب صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا برداشت ختم ہو جائے گی چیزیں قابو سے باہر ہو جائیں تو کوئی آئے گا جو طاقت کے زور حالات کو قابو میں بھی کرے گا اور معاملات کو بہتر بھی کر لے گا۔ کیوں سب کسی طاقت کے مظاہرے کا انتظار اور انتظام کر رہے ہیں۔ فواد چودھری کہتے ہیں "میں تو کہتا ہوں کہ بائیس کروڑ عوام پر مقدمات بنا دیں مجھے گرفتار کرنے والوں کو شرمندگی ہو گی۔ پولیس بتائے مجھے کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔ جو مقدمہ درج ہوا ہے اس پر فخر ہے، نیلسن منڈیلا پر بھی یہی مقدمہ تھا، کہا جا رہا ہے میں نے بغاوت کی، میں سابق وفاقی وزیر اور سپریم کورٹ کا وکیل ہوں، مجھے عزت و احترام کے ساتھ ٹریٹ کیا جائے۔"
خدارا نیلسن منڈیلا کے ماننے والوں کو تو شرمندہ نہ کریں۔ نیلسن منڈیلا سے کیا غلطی ہوئی کہ ہم اسے یہاں ملایا جا رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ فواد چودھری نے نیلسن منڈیلا کے حالات زندگی،فیصلوں اور گفتگو پر نظر ڈالی ہو گی کیا وہ ایسے سیاسی رویے کے ساتھ آگے بڑھتے تھے۔ خدارا نیلسن منڈیلا نہ بنیں، نہ کسی کو منڈیلا بننے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کے جذبات سے مت کھیلیں، پاکستان کا خیال کریں۔ کوئی سابق وفاقی وزیر ہو یا کوئی اور اہم عہدیدار یا ایک عام آدمی کیا سب کے ساتھ برابر سلوک نہیں ہونا چاہیے، آپ کیسے اپنے مرتبے کی وجہ سے بہتر رویے کا تقاضا کر سکتے ہیں۔ کیا پاکستان کے ایک عام شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اداروں کو کہے کہ اس کے اچھا سلوک کیا جائے۔ جب آپ اقتدار میں تھے تو اس معیار پر کیا آپ نے لوگوں ہے ساتھ اچھا برتاؤ کیا۔ اللہ ملک پر رحم کرے اور ہمیں تعمیری سوچ کے حامل افراد کو منتخب کرنے کی طاقت عطا فرمائے۔ جس راستے پر یہ چل رہے ہیں امن کی طرف تو بہرحال نہیں جاتا۔ کیونکہ جو حالات ہیں نظر آ رہا ہے کہ گرفتاریوں کا سلسلہ آگے بڑھے گا اور یہ فواد چودھری تک رکنے والی بات نہیں ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے دیگر رہنماؤں کے اشتعال انگیز، نفرت انگیز بیانات موجود ہیں اور وہ مستقبل میں بھی یہی زبان استعمال کریں گے تو یقینی طور پر ان کے خلاف بھی مقدمات قائم ہوں گے اور مزید گرفتاریاں بھی ہوں گی۔
جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں اس وقت تک کی اطلاعات کے مطابق لاہور میں فوج کی بھاری نفری طلب کر لی گئی ہے جب کہ رینجرز اور ایف سی کو بھی طلب کر لیا گیا ہے۔ پنجاب پولیس کی مزید نفری قصور، سیالکوٹ ، گوجرانوالہ سے لاہور طلب کر لی گئی ہے۔ لاہور کو چاروں اطراف سے سیل کرنے پر غور ہو رہا ہے، عمران خان کو کسی بھی وقت گرفتار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ پنجاب پولیس نے عمران خان کی رہائش زمان پارک جانے والے تمام راستے جیل روڈ سے بند کر دیئے ہیں۔ علی امین گنڈاپور کو زمان پارک کا سیکورٹی چیف مقرر کر دیا گیا ہے۔ یہ آخری اطلاعات ہیں اللہ رحم کرے۔