22جمادی الثانی، یوم صدیقؓ
سیدنا امام ابوبکر صدیق ؓکے اوصاف کو پیارے نبی ؐ نے یوں بیان فرمایا :’’جس جس نے میرے ساتھ احسان کیا ہے میں نے اس کا صلہ اور بدلہ ادا کردیا ہے سوائے ابوبکر کے، اس کے احسانات کا صلہ اور بدلہ اللہ ہی اس کو قیامت کے دن دے گا، اور جتنا نفع مجھے ابوبکرؓ کے مال نے پہنچایا اور کسی کے مال نے نہیں پہنچایا، اور میں نے جس پر بھی اسلام کو پیش کیا اس نے منہ ہی موڑا سوائے ابوبکر کے، ( کہ وہ اسلام قبول کرنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچائے) اور اگر میں کسی کو خلیل اور دوست بناتا تو ضرور ابوبکر ہی کو اپنا خلیل بناتا، آگاہ رہو تمہارے یہ صاحب اللہ کے خلیل ہیں"۔
آپ کا اصل نام عبد اللہ تھا۔بارگاہ رسالت سے آپ کو ایک لقب عتیق اور دوسرا صدیق عطا ہوا- امت کے اندر مقام صدیقیت میں سب سے بلند اور سب پہلے فائز ہونے کی بناپر آپ کو صدیق اکبر کہا جاتا ہے۔ ابن الدغنہ نے آپ کے وہی اوصاف بیان کیے جو سیدہ خدیجہ ؓ نے حضور کریم ؐکے بیان فرمائے تھے، حدیبیہ کے موقع پر حضرت عمر ؓ کو آپ نے انہی الفاظ میں جواب دیا جن الفاظ میں خود حضور پاکؐ نے جواب عطا فرمایا تھا، حالاں کہ آپ نے وہ الفاظ سنے نہیں تھے آقا کریم کی طرح آپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے 63 برس کی عمر ہی عطا فرمائی ،آپ وہ واحد ہستی ہیں جن کی اوپر نیچے چار نسلیں صحابیت کے شرف سے مشرف ہیں،نیزآپ کو یہ فضلیت بھی حاصل ہے کہ آپ کی بیٹی سیدہ عائشہ ؓ حضوراکرم ؐ کی زوجہ مکرمہ اور ام المومنین ہیں
آپ ؐ کی فطرت شروع سے سلیم تھی- قبول اسلام سے پہلے بھی آپ کو بت پرستی اور شراب نوشی سے نفرت تھی ، اس لیے جیسے ہی نوائے صداقت آپ کے کان میں پڑی آپ نے اسے قبول کرنے میں دیر نہ کی اور مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کیا۔قبول اسلام کے بعد جان ومال سے اسلام کی اشاعت میں مصروف ہوگئے- کئی افراد آپ کی تبلیغ سے مسلمان ہوئے اور کئی مسلمان غلاموں کو آپ نے اپنے مال سے خرید کر اللہ تعالیٰ کے لیے آزاد کیا، سفر و حضر میں حضور کریمؐ کے ساتھی اور رفیق رہے، مسجد نبوی کی زمین خریدنے کے لیے آپ ہی نے رقم فراہم کی، تمام جنگوں اور معرکوں میں حضور پاکؐ کے ساتھ شریک رہے؛ حضور کریم کے بعد وہ وقت اسلام کے لیے اتنا کٹھن تھا کہ اگرصدیق اکبر نہ ہوتے تو عرب میں شجر اسلام کی جڑ ہی کٹ جاتی لیکن اپنی اصابت رائے،خداداد فہم وفراست اور قوت ایمانی سے اس شجر کی آپ نے آبیاری کی اور چند ماہ کے اندر اندر تمام خطرات کا قلع قمع کردیا۔ سیدنا امام ابوبکر قبول اسلام سے پہلے بھی عقل و فہم اور حلم و بردباری میں معروف اور اصابت رائے سے موصوف تھے، اس لیے قریش نے اشناق کی خدمت ا?پ کے سپرد کر رکھی تھی، اشناق کا مطلب ہے قاتل سے دیت یا خون بہا لینے کا فیصلہ کرنا۔علم الانساب کے ماہر تھے۔رنگ گورا، جسم دبلا اور قد موزوں تھا،کمر میں کچھ خمیدگی سی تھی،نہایت سادگی پسند تھے،اصل ذریعہ معاش تجارت تھا،کئی علاقوں میں جاگیریں تھیں۔تقوی اور للہیت میں بے مثل تھے،خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھتے۔نہایت مہر بان اور نرم دل تھے اس لیے حضور ؐپاک نے فرمایا تھا :میری امت میں سب سے مہربان ابوبکر ہیں۔ خلیفہ بننے کے بعد باغ فدک کی پیداوار سیدہ فاطمہ ؓ، حسنین کریمین اور دیگر مقررہ مصارف پر اسی طرح خرچ کرتے رہے جس طرح نبی مکرم ؐکرتے رہے،اور اس ضمن میں بعد میں آنے والے خلفاء نے آپ ؓ کی پیروی کی؛ 22جمادی الثانی کو وفات ہوئی۔حضرت علی ؓ کو اطلاع ملی تو انا للہ پڑھتے ہوئے گھر سے باہر تشریف لائے ۔حیات رسول ؐ میں سترہ نمازیں حضورپاک کی نیابت میں آپ ہی نے پڑھائیں۔سب سے پہلے آپ کو امام اور خلیفہ راشد کہا گیا۔آپ پہلے خلیفہ ہیں جن کا وظیفہ اور تنخواہ رعایا نے مقرر کی۔سب سے پہلے بیت المال قائم کیا۔ دوزخ سے نجات کی خوش خبری سب سے پہلے آپ کو ملی.