یوم سیاہ

26 جنوری کو بھارت کا یوم جمہوریہ ہے۔اس دن نہ صرف پورے ہندوستان میں بلکہ بھارت کے زیر تسلط مختلف ریاستوں میں بھی یہ دن بڑت دھوم دھڑلے سے منایا جاتا ہے۔ سرکاری سطح پر تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ فوجی افسران کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنما اور حکومتی عہدیداران بھی ان تقریبات میں بڑے اہتمام کے ساتھ شرکت کرتے ہیں۔ بندے ماترم کی گونج ہندوستان کے طول و عرض میں سنائی دیتی ہے۔بھارت دیش کی بات کی جاتی ہے۔ایکتا اور اکٹھ پر لیکچر دیئے جاتے ہیں۔بھارت کو ایک سیکولر ملک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔!یہ کہانی یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی۔یقینا سب اچھا کی رپورٹ تمام مقامات سے آتی ہے۔ مگر ایک مقام ایسا بھی ہے کہ جہاں نہ سب اچھا ہے اور نہ ہی وہاں سے سب اچھا کی رپورٹ آتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تمام دُنیا کی نظریں اس دن یعنی 26 جنوری کو اسی ایک خاص مقامکی طرف لگی ہوئی ہوتی ہیں۔جی ہاں۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے۔میری مراد مقبوضہ جموں و کشمیر سے ہے۔پورے ہندوستان میں تو 26 جنوری کو یوم جمہوریہ منایا جاتا ہے مگر مجھے یہ لکھنے کی اجازت دیجئے کہ بھارت سالہا سال سے مقبوضہ جموں و کشمیر یعنی سری نگر کے لال چوک میں اپنا یوم جمہوریہ منانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ اسے اپنے اس مقصد میں ابھی تک کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔کیلنڈر کے تبدیل ہوتے ہی یعنی نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی بھارتی تسلط سے آزادی حاصل کرنے والی تنظیموں اور جماعتوں کی طرف سے 26 جنوری کو بھارت کے یوم جمہوریہ منائے جانے کے موقع پر اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کے اعلانات شروع ہو جاتے ہیں۔سری نگر میں قائم کٹھ پتلی سرکار سے لے کر دلی میں بیٹھی
بنیا سرکار تک سب کے ماتھے پر بل پڑ جاتے ہیں اور ان کے چہرے رنگ بدلنا شروع کر دیتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی کٹھ پتلی ریاستی سرکار بھارتی سرکار کی آشیر واد کے لئے پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کر دیتی ہے۔یوم سیاہ منانے والی جماعتوں اور تنظیموں کے رہنمائوں اور کارکنوں کی گرفتاریاں شروع کر دی جاتی ہیں۔ سری نگر شہر اور خاص طور پر یوم جمہوریہ کی تقریب والے مقام پر حفاظتی انتظامات انتہائی سخت کر دیئے جاتے ہیں۔یوم جمہوریہ پر جمہور یعنی عوام کا باہر نکلنا اور چلنا پھرنا بھی محال کر دیا جاتا ہے۔ہر چوک اور چوراہے پر تلاشی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس طرح پورے شہر میں خوف و ہراس کی فضا قائم کر دی جاتی ہے۔ سخت حفاظتی انتظامات با الفاظ دیگر سنگینوں کے سائے تلے یوم جمہوریہ کی تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
قارئین محترم ! صورتحال اگر ایسی بھی ہو تو شاید کوئی مسئلہ نہ پیدا ہو کیونکہ دوسری طرف یوم سیاہ منانے والے بھی خاموشی سے بیٹھنے والے نہیں ہوتے ۔ہر سال بھارتی فوج ٗ پولیس اور دیگر سیکیورٹی فورسز پر حملے ہوتے ہیں۔ صورتحال کچھ ایسی ہوتی ہے کہ دلی سرکار کے ساتھ ساتھ کٹھ پتلی ریاستی حکومت بھی خوفزدہ ہوتی ہے۔ فوج اور پولیس مجاہدین کے حملوں اور کارروائیوں سے ہر وقت خوفزدہ رہتے ہیں۔ادہر مجاہدین جن کو ٹیرارسٹ کہا جاتا ہے۔فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں سے ڈرنے یا خوفزدہ ہونے کی بجائے نہایت ہی دیدہ دلیری اور جرآت سے کام لیتے ہوئے فوجیوں کے ٹھکانوں اور پولیس کے تھانوں پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔بھارت مخالف اور آزادی پسندوں کی طرف سے حملوں کا یہ سلسلہ کئی کئی دن تک جاری رہتا ہے۔ مجاہدین کے حملوں کے خوف کی وجہ سے سیکیورٹی اداروں کے افسران اور دیگر اہلکار اپنے اپنے بنکروں میں چھپنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ مناظر تو صرف یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کے حوالے سے ہر سال سری نگر اور اس کے آس پاس نظر آتے ہیں۔اس سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سال کے دیگر دن ٗ ہفتے اور مہینے مقبوضہ جموں و کشمیر میں کیسے گزرتے ہوں گے۔ خوف ہراس کی ایک فضا ہے کہ جو سارا سال رہتی ہے۔
بھارت نے جموں و کشمیر میں آٹھ لاکھ سے زیادہ فوج تعینات کر رکھی ہے۔ یہ تعداد دُنیا میں سب سے زیادہ ہے کہ جو کسی ایک ریاست یا چھوٹے سے علاقے میں تعینات کی گئی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں مسلح افواج کی تعیناتی اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑنے کے باوجود غیرتمند اور جرآتمند کشمیریوں نے ہمت نہیں ہاری۔وہ بڑی دلیری اور جرآتمندی کے ساتھ ہر قسم کے بھارتی مظالم کا مقابلہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ان کا عزم جواں ہے اور آزادی کی جدوجہد جاری ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلہ کو دُنیا کے سامنے خود کشمیریوں نے بے پناہ قربانیاں دے کر زندہ کر دیا ہے۔دُنیا تو کشمیر کو بھول چکی تھی۔مگر جموں و کشمیر کی پُر عزم اور نڈر نوجوان نسل نے 1989 ء سے اپنے تازہ لہو سے جو تحریک شروع کی۔ وہ اس قدر پُر جوش ٗ جاندار اور ولولہ انگیز تھی کہ پُوری دُنیا کشمیر کی طرف متوجہ ہو گئی۔کشمیریوں نے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ جان و مال اور عزت و آبروکی قربانیوں کے ساتھ ساتھ بھارتی جیلوں اور عقوبت خانوں میں ہزاروں نوجوان موت و زیست کی کشمکش سے دوچار ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں نوجوان لا پتہ ہیں۔ اس کے علاوہ بہت بڑی تعداد میں معذور اور زخمی بھی ہیں۔ اس لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کا شاید ہی کوئی خاندان ہو کہ جو متاثر نہ ہوا ہو۔
قارئین کرام ! بھارت تمام تر طاقت اور ظلم و جبر کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کے باوجود بھی جب کشمیریوں کو زیر نہ کر سکا تو اُس نے5 اگست 2019 میں اپنے آئین میں ترمیم کرکے جموں و کشمیرکی خصوصی ریاستی حیثیت کا خاتمہ کرکے اس ریاست کو بھارت کا باقاعدہ حصہ بنا دیا۔اس گھناونے فعل پر مودی سرکار پر خاصی لعن طعن کی گئی مگر اس نے کسی کی نہ سُنی۔