انارکلی لاہور میں دہشت گردی کی واردات

حالات میں قدرے بہتری کے بعد وطن عزیز میں گزشتہ کچھ دنوں سے دہشت گردی کی وارداتوں کا تسلسل دیکھنے میں آیا ہے، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ کے بعد جمعرات کو تیسرے پہر لاہور کے معروف اور مصروف تاریخی بازار انار کلی میں دھماکے سے تین افراد جاں بحق اور 29 زخمی ہو گئے، دھماکے کا سبب پہلے تو گیس سلنڈر کا پھٹنا بتایا جاتا رہا تاہم بعد ازاں تفتیش کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ ایک دہشت گردانہ کارروائی تھی جو دھماکہ خیز مواد نصب کر کے عمل میں لائی گئی، وزیر اعلیٰ پنجاب نے حسب روایت اعلان کیا ہے کہ دہشت گردی کے ذمے دار قانون کی گرفت سے بچ نہیں پائیں گے انکے یہ دعوے کس حد تک درست ثابت ہوتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا البتہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے انار کلی دھماکے کی کارروائی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے جنگ بندی ختم کی جا چکی ہے اور وہ پاکستان کے مختلف شہروں میں اس قسم کے واقعات کر سکتے ہیں ۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے لاہور اور دیگر شہروں میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں کا تعلق کالعدم ٹی ٹی پی سے جوڑا ہے عین ممکن ہے ان کا خدشہ درست ہو تاہم ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ٹی ٹی پی کے علاوہ بھی بہت سی قوتیں ایسی ہیں جنہیں پاکستان میں امن و امان کی بہتر صورت حال ایک آنکھ نہیں بھاتی اور انکی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ پاکستان میں تخریب کاری اور دہشتگردی کی کارروائیوں کے ذریعے یہاں کے عوام کو خوفزدہ اورقانون نافذ کرنیوالے اداروں کو الجھائے رکھا جائے اور جس طرح بھی ممکن ہو پاکستان میں افراتفری۔ مایوسی اور بے یقینی کی فضا کو پروان چڑھایا جائے اس لیے اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ لاہور اور دیگر شہروں میں دہشت گردی کی تازہ لہر کی تحقیق و تفتیش کے دوران ایسے عناصر کے عزائم کو بھی پیش نظر رکھا جائے خاص طور پر ان حالات میں اسکی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے جب کہ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق انارکلی لاہور کے دھماکہ کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے نہیں بلکہ بلوچ نیشنل آرمی نے قبول کی ہے۔ بلوچ نیشنل آرمی کی پشت پناہی کون سے ممالک اور بین الاقوامی قوتیں کر رہی ہیں یہ کسی سے پوشیدہ نہیں اس لیے دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں کی تحقیقات کو ایک محدود دائرے تک محیط رکھنے کی بجائے وسیع تر کیا جانا قومی و ملکی مفاد کا تقاضا ہے۔ یہاں یہ بات بھی فراموش نہیں کی جانا چاہئے کہ افغانستان سے امریکہ کی ذلت آمیز شکست اور پسپائی کے باعث بھارت جیسے پاکستان کے ازلی دشمن کے مفادات کو جو شدید نقصان پہنچا ہے اور اسکے عزائم جس بری طرح مجروح ہوئے ہیں اسکے باعث اسکے سینے پر سانپ لوٹ رہے ہیں چنانچہ وہ ایک زخمی سانپ کی طرح پاکستان کیخلاف کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کریگا اور یہ محض مفروضہ یا بدگمانی نہیں بلکہ بھارت کا گزشتہ پون صدی کا کردار اس ضمن میں ٹھوس دلیل کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد تو بھارت سے متعلق نرم گوشہ اور اس سے کسی نیکی کی توقع رکھنے کی قطعاً کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
جہاں تک ٹی ٹی پی کا تعلق ہے تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر امریکہ بیس برس تک افغانستان میں ہر طرح کا جدید ترین اسلحہ آزمانے اور گھٹیا سے گھٹیا حربہ اختیار کرنے کے باوجود آخر کار طالبان سے مذاکرات کے ذریعے افغانستان سے اپنی فوجوں کے بحفاظت انخلا کے معاہدہ میں کوئی شرم و عار محسوس نہیں کرتا تو ہمیں آخر اپنے ہی بعض ناراض یا راہ گم کردہ عناصر سے مذاکرات کر کے انہیں ملک کے آئین کے تابع پر امن زندگی بسر کرنے کا موقع دینے، وطن عزیز میں امن کی فضا بہتر بنانے اور عوام کو محفوظ ماحول میں زندگی گزارنے کے قابل بنانے میں کیا امر مانع ہے؟ قبل ازیں ہم بلوچستان کے علیحدگی پسندوں اور دہشت گردی و تخریب کاری کی سنگین کارروائیوں میں ملوث مختلف تنظیموں سے وابستہ عناصر کو معافی اور ہتھیار ڈال کر معمول کی زندگی گزارنے کا موقع دے چکے ہیں تو آخر ٹی ٹی پی کے ساتھ اسکے برعکس طرز عمل کا جواز کیا ہے؟ خاص طور پر ٹی ٹی پی سے تین ماہ کے جنگ بندی کے معاہدہ کے بعد اس کی تجدید نہ کرنے کی وجوہ بھی سمجھ سے بالاتر ہیں جب کہ اطلاعات یہی ہیں کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے معاہدہ کی خلاف ورزی کی کوئی شکایت سامنے نہیں آئی البتہ حکومت پاکستان نے ان سے جو وعدے کئے تھے ہماری طرف سے وہ پورے نہیں کئے گئے اور جن لوگوں کی رہائی پر آمادگی ظاہر کی گئی تھی وہ بھی عمل میں نہیں لائی گئی۔ ملک میں تعمیر و ترقی اور خوش حالی کیلئے امن بہرحال اولین ترجیح ہونا چاہئے کہ اس کی عدم موجودگی میں نہ تو صنعتی و تجارتی اور سیاحتی سرگرمیاں فروغ پا سکتی ہیں اور نہ ہی دیگر شعبے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتے ہیں اس لیے ہمیں گزشتہ بیس برس جاری رکھی گئی نام نہاد دہشت گردی کیخلاف جنگ کے تجربات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس جنگ کے دوران ہونیوالے ہزاروں لوگوں کے جانی اور اربوں ڈالر کے مالی نقصان سے سبق سیکھنا چاہئے، اپنے شہریوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کیلئے جامع منصوبہ بندی کر کے مربوط حکمت عملی کے ذریعے آگے بڑھنا چاہئے۔ ہم جس طرح کی دگرگوں معاشی صورتحال سے دو چار ہیں اس کا بھی تقاضا ہے کہ ہم اپنے دشمنوں کی تعداد کم سے کم کر نے اور دوستوں اور ہمدردوں میں ہر ممکن طریقہ سے اضافہ پر توجہ دیں ورنہ اگر ہم اپنے ملک کے خراب اندرونی حالات ہی میں الجھے رہے تو اسکا فائدہ ہمارے دشمنوں ہی کو پہنچے گا ہمیں بہر صورت ایسی صورتحال سے بچنا ہو گا!