لکیر کا فقیر
پچھلے ہفتے بچپن کے اپنے ایک دوست کی وساطت سے چیئرمین ایف بی آر سے ملاقات کا موقع ملا۔ پچھلے پینتیس چالیس سالوں کی تاریخ میں اس سیٹ پر آئی اے امتیازی سے لیکر جاوید غنی تک متعدد ہستیاں براجمان رہیں جن میں سے کچھ کا نام آج بھی ایک چمکدار ستارے کی طرح جگ مگ کرتا دکھائی دیتا ہے جبکہ انہی میں سے چند ایک ایسے بھی ہیں جو اس خوبصورت عہدے پر سیاہ داغ چھوڑ گئے۔ رعب دبدبہ اور ایمانداری کے معاملہ میں اگر کسی کا حوالہ دیا جا سکتا ہے تو پھر ان میں ایک آئی اے امتیازی اور دوسرا ریاض حْسین نقوی وہ قابل ذکر شخصیات ہیں جن پر یہ محکمہ بلا شک و شبہ فخر کرتا ہے۔ گو کہ آئی اے امتیازی صاحب کے آخری دنوں میں انکی بیوی کے علاج کو اس وقت کے ایک ڈان کے مقدمہ کے فیصلے کے تناظر میں کچھ لوگ تحفظات کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن تاریخی شواہد اس بات سے قطع نظر انکے بارے میں بڑی مثبت گواہی دیتے ہیں، بیوروکریٹک ٹچ اور انتظامی فیصلوں کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو پھر بلاشبہ صدیق سلمان اور خاص کر یوسف عبداللہ کا نام اور انکے تاریخ ساز فیصلے اور پالیسیاں کسی تعارف کی محتاج دکھائی نہیں دیتیں جبکہ اسی ایف بی آر کی تاریخ میں صدیق سلیمان صاحب کے بعد ایک ایسے چیئرمین بھی تعینات رہے ہیں جو اپنے طور پر کوئی بھی فیصلہ اپنے ہی ایک کلکٹر کی مشاورت یا اجازت کے بغیر نہیں کرتے تھے۔ شائد اس کی بنیادی وجہ یہ تھی یا حْسن اتفاق کہ زبان زد و عام بیک وقت اس وقت کے کسی بہت بڑے عہدے دار کے صاحب زادے ان دونوں کی تقرری کے ضامن تھے۔ دوست لوگ یہاں مجھ سے ایک سوال پوچھنے میں حق بجانب ہونگے کہ جب اتنے لوگوں کا ذکر کر رہا ہوں تو پھر ایک ایسے بندے کا ذکر کیوں نہیں کر رہا جسکی تعیناتی پر یہ دلیل پیش کی جا رہی تھی کہ یہ شخص اپنے آئی ٹی بیک گراؤنڈ کی وجہ سے محکمہ میں اس حوالے سے قابل ذکر اصلاحات متعارف کروا سکتا ہے جو کہ ایک انقلاب کے طور پرگنی جائینگی۔
وجہ جاننا چاہیں گے تو دو لفظی جواب ہے کہ ایک اس شخص سے ذاتی تعلق اور دوسرا اسکی متنازعہ تعیناتی جسے اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں منسوخ کر دیا لیکن ذاتی تعلق کے باوجود ایمانداری سے ایک کمنٹ ضرور کر سکتا ہوں کہ اسکی تعیناتی کے دوران اور کچھ ہوا یا نہیں لیکن ایک ایسے کام کی داغ بیل پڑ گئی کہ جہاں جس کلکٹریٹ میں ایک کلکٹر تعینات ہوتا تھا وہاں پر اس وقت تین تین چار چار کلکٹر اور جہاں پورے پاکستان میں دو یا تین چیف کلکٹر تعینات تھے وہاں پر اب شائد دس سے بھی زیادہ چیف کلکٹر تعینات ہیں اور رہی بات ممبروں کی تو انکی تعداد تو گننے سے رہے جو راقم کے خیال میں ایک ایسا ایشو ہے جس کو ہر صورت ری وزٹ ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں انشاء اللہ راقم الگ سے ایک کالم بھی لکھے گا اور پھر کبھی اگر چیئرمین صاحب سے ملاقات کا موقع ملا تو تفصیلی گفتگو بھی ہو گی کہ کس طرح یہ سارا سٹرکچر انتظامی اور مالیاتی حوالوں سے ہماری اکانومی کو متاثر کر رہا ہے۔
دوست لوگ پوچھ سکتے ہیں کہ اسی ملاقات میں یہ معاملہ کیوں نہیں ڈسکس کیا تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ چونکہ چیئرمین صاحب سے میرے دوست کی یہ ملاقات نجی تھی اور میری بھی پہلی ملاقات تھی اور اس بات کے باوجود کہ حسب معمول اپنے عمومی کلچر کے مطابق اس ملاقات میں ذاتی حوالوں کے علاوہ سماجی اور اخلاقی ایشوز کے ساتھ مجموعی ملکی مسائل پر بھی گفتگو ہوئی لیکن سوشل آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے میں نے قصداً اس نازک مسئلے پر گفتگو سے گریز کیا۔ دوران گفتگو جب مجموعی ملکی مسائل پر بات ہو رہی تھی تو اپنے صحافتی مزاج کے تابع کچھ مسائل پر خاص کر اکانومی کے حوالے سے اس خاکسار نے تذکرہ کیا جس پر میرے سامنے بیٹھے شخص جسکی شخصیت سے بیوروکریٹک جھلک کے ساتھ ساتھ اسکا انٹلیکچول ویژن اور دھیما پن بھی عیاں ہو رہاتھا نے بڑے پر معنی انداز میں صرف ایک جملہ کہہ کر کوزے میں سمندر بند کر دیا کہ مسائل کی نشاندھی تو ہم میں سے ہر کوئی کرتا رہتا ہے لیکن یہ مسئلہ جو ہر شعبہ میں ہمارا منہ چڑاتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس کا کوئی حل تجویز نہیں کر پاتے اور صرف لکیر کو پیٹتے رہتے ہیں۔ اس شخص کی صرف اس بات سے مجھے لگا کہ شائد اس بندے کے ذہن میں حسب روایت لکیر کا فقیر ہونے والی بات نہیں اور اس نے جو ماڈرن تعلیم اور کورسز کیے ہیں ان سے کام لیتے ہوئے یہ اپنے محکمہ میں کوئی نئے ماڈل ترتیب دینے کی فکر میں ہے جو موجودہ دور کے تقاضوں کے عین مطابق ہوں۔ یہ بات میں اس لیے کر رہا ہوں کہ دوران گفتگو مسائل کے ممکنہ حل کے بارے میں میں نے جس اپروچ کی طرف اشارہ کیا اس بارے اس ڈاکٹر اشفاق کا کہنا تھا کہ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ آپکی تجویز کردہ اپروچ خاصی سخت گیر دکھائی دیتی ہے۔
اس کی اس بات سے میں سمجھ گیا کہ یہ بندہ جس سکول آف تھاٹ سے تعلق رکھتا ہے انکا نظریہ ہے کہ سخت گیر ماحول کبھی بھی اکنامک گروتھ میں ممدو معاون ثابت نہیں ہوتا اور اگر وسعت نظری سے اس کا جائز لیا جائے تو یہ بات کسی حد تک درست بھی مانی جا سکتی ہے کیونکہ ایف بی آر کی تاریخ گواہ ہے کہ ریاض حسین نقوی کے زمانے میں اس وقت کے ممبر سرفراز احمد خان نے جو ماڈل سخت گیر موقف پر ترتیب دیا تھا اس سے اس وقت اکانومی بری طرح متاثر ہوئی جس پر بعد میں دونوں کو تبدیل کرنا پڑا اور پھر شوکت عزیز کی سافٹ اپروچ اکنامک ریکوری میں دوسرے عوامل کے ساتھ کافی کامیاب ہوئی۔