پارلیمانی نظام کو عوامی بنانے کی ضرورت
ایک سروے کے مطابق 87 فیصد عوام کی رائے ہے کہ ملک درست سمت میں نہیں چل رہا۔ پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈر ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں صبح شام حالات کا ماتم ہوتا رہتا ہے۔ پاکستان کے عوام مختلف نوعیت کے مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں۔ اگر موجودہ پارلیمانی نظام کامیابی کے ساتھ چل رہا ہوتا تو پاکستان میں آئین اور قانون کی حکمرانی ہوتی عوام کو فوری اور سستا انصاف مل رہا ہوتا اور انہیں سماجی انصاف اور مساوی مواقع کا بنیادی حق حاصل ہوتا۔ پولٹیکل سائنس کے اصول کے مطابق پارلیمانی نظام عوامی اور جمہوری ہوتا ہے اور اس نظام میں عوام کی بالادستی ہوتی ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے پارلیمانی نظام دو سو خاندانوں کا یرغمال بن چکا ہے۔ ان خاندانوں نے پارلیمانی نظام کو تجارت بنا لیا ہے۔ سرمایہ دار اور جاگیر دار خاندان انتخابات کے دوران سرمایہ کاری کرکے پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہو کر حکومت کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔ وزیراعظم کا انتخاب پارلیمنٹ کے اراکین کرتے ہیں لہذا وہ اپنے مالی مفادات کے لیے وزیراعظم کو بلیک میل کرتے رہتے ہیں۔ موجودہ پارلیمانی نظام میں متوسط طبقے کا کوئی پڑھا لکھا بے لوث با کردار شخص انتخاب لڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ پارلیمانی نظام کی وجہ سے پاکستانی جمہوریت سر مایہ دارانہ جا گیر دارانہ سنگدلانہ غیر منصفانہ اور استحصالی بن چکی ہے۔ اشرافیہ کے مفادات کی محافظ پارلیمانی جمہوریت کے تحت نئے انتخابات کے بعد بھی روایتی چہرے منتخب ہو کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ جائیں گے اور پاکستان و عوام دونوں لاوارث ہی رہیں گے۔ پارلیمانی جمہوریت عوامی نہیں بلکہ شخصی خاندانی اور وراثتی بن چکی ہے۔ پارلیمانی جمہوریت کے بدقسمت اور افسوس ناک تجربات کے بعد ناگزیر ہو چکا ہے کہ سرمایہ دارانہ پارلیمانی نظام کو عوامی بنانے کے لئے اس میں جوہری تبدیلیاں کی جائیں۔ آئین کے مطابق ریفرنڈم کا آپشن موجود ہے عوام کے سامنے یہ سوال رکھا جا سکتا ہے کہ کیا وہ پارلیمانی نظام سے مطمئن ہیں اگر عوام کی اکثریت " نہیں" میں جواب دے تو عوام کی تائید کے بعد آئین میں ترامیم کرکے پارلیمانی نظام کو حقیقی معنوں میں عوامی اور جمہوری بنایا جا سکتا ہے۔ آئینی ریفرنڈم کے بعد پارلیمنٹ کے اراکین کے لیے پارلیمانی نظام میں تبدیلیوں کو روکنا آسان کام نہیں ہوگا۔ پارلیمانی نظام کے مسلسل تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں یہ لازم ہو چکا ہے کہ عوام براہ راست ووٹوں سے وزیراعظم کو منتخب کریں جو پارلیمنٹ کے بجائے عوام کو جواب دہ ہو اور اس کو بیس پچیس اہل اور دیانت دار افراد پر مشتمل کابینہ بنانے کا اختیار ہو۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مدت چار سال کی جائے۔ دو سال کے بعد سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین کی دو تہائی اکثریت اگر یہ سمجھے کہ وزیراعظم کو عوام سے اعتماد کا ووٹ لینا چاہیے تو وزیراعظم آئینی ریفرنڈم کے ذریعے عوام کا اعتماد حاصل کرے اگر وہ نہ کر سکے تو مڈ ٹرم انتخابات کرائے جائیں۔ کوئی فرد دو بار سے زیادہ وزیراعظم منتخب نہ ہو سکے ۔ وزیراعظم کے لئے لازم ہو کہ وہ ہر صوبے سے پانچ فیصد ووٹ حاصل کرے ۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین صرف قانون سازی کریں ان کا ترقیاتی فنڈ سے کوئی تعلق نہ ہو۔ انتظامی بنیادوں پر نئے صوبے تشکیل دیئے جائیں تاکہ عوام کو فوری اور معیاری گورننس فراہم کی جاسکے اور ایک صوبے کی بالادستی کا تاثر ختم ہو جائے۔ سینٹ اور خواتین کی خصوصی نشستوں کی طرح قومی و صوبائی اسمبلیوں کے تمام اراکین کا انتخاب متناسب نمائندگی کے اصول پر کرایا جائے ۔ عوام سیاسی جماعتوں کو انکے منشور کی روشنی میں ووٹ دیں اور سیاسی جماعتیں ووٹوں کے تناسب سے اراکین اسمبلی نامزد کریں۔ نادرا کے ریکارڈ کے مطابق تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا کوٹہ مقرر کیا جائے تاکہ اسمبلیوں میں تمام طبقات کی نمائندگی ہو سکے۔ متناسب نمائندگی کے اصول کیمطابق انتخابات کرانے سے کوئی ووٹ ضائع نہیں ہوگا الیکٹیبلز کی بلیک میلنگ اور ہارس ٹریڈنگ ختم ہوجائیگی مساوی ترقی کے امکانات پیدا ہوں گے سرمائے کا اثر و رسوخ کم ہوگا روایتی خاندانوں کی بالادستی ختم ہوجائیگی۔ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے تصور کے مطابق اشرافیہ کی بجائے عوامی سماجی جمہوریت وجود میں آئے گی۔ آئین کے آرٹیکل نمبر 62 اور 63 کے مطابق سینیٹ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی اہلیت دیانت اور شہرت جانچنے کے لئے غیر جانبدار آزاد اور خود مختار کمیشن تشکیل دیا جائے جو امیدواروں کی سکروٹنی کرے۔ بلدیاتی انتخابات قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے ساتھ ہی کرائے جائیں۔ بلدیاتی انتخابات اور مقامی حکومتوں کے سلسلے میں آئین میں چیپٹر اور شیڈول شامل کیا جائے۔ قومی مالیاتی کمیشن کی طرح صوبائی مالیاتی کمیشن بھی تشکیل دیا جائے تا کہ آئین کے مطابق مقامی حکومتوں کو سیاسی انتظامی اور مالیاتی اختیارات منصفانہ طور پر منتقل کیے جا سکیں۔ سیاسی جماعتوں میں شخصیت پرستی اور وراثتی سیاست کو ختم کرنے کے لیے پانچ ہزار کارکنوں کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ یونین کونسل سے لے کر مرکز تک سیاسی جماعتوں کے عہدے داروں کو منتخب کریں یہ انتخابی عمل میڈیا کے سامنے صاف اور شفاف طریقے سے مکمل کرایا جائے جس کی نگرانی الیکشن کمیشن پاکستان کے آفیسر کریں۔ پاکستان کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی تجربہ کار ممتاز نیک نام اور محب الوطن شخصیات محترم شمشاد احمد محترم ڈاکٹر شعیب سڈل محترم شوکت جاوید محترم الطاف قمر محترم جاوید حسین محترم طارق کھوسہ محترم پروفیسر حسن عسکری محترم پروفیسر فتح محمد ملک محترم افتخار عارف محترم ظفر صراف متفق ہیں کہ انگریزوں کے بنائے ہوئے پولیس بیوروکریسی عدالتی سیاسی اور معاشی نظاموں میں قائد اعظم اور علامہ اقبال کے تصورات کے مطابق تبدیلیاں لائے بغیر پاکستان ترقی وخوشحالی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہوسکتا اور نہ ہی پاکستان کے عوام کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔