بدھ، 22 جمادی الثانی 1443ھ،26 جنوری 2022ء
’مجھے کیوں نکالا‘ کے بعد’ اگر مجھے نکالا گیا‘ کا نیا بیانیہ موضوع بحث بن گیا
ہمارے وزیراعظم عمران خان چونکہ ہمیشہ سے اپنی مرضی سے کھیلنے کے عادی ہیں اس لئے ان کے مزاج میں‘ مؤقف میں سخت گیری صاف محسوس ہوتی ہے مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ’’کھیلوں کا جہاں اور ہے‘ سیاست کا جہاں اور‘‘ کھیلوں میں بھی اگر اچھے کھلاڑی اور کپتان کی بات نہ ماننے والے اکھڑ کھلاڑی مقابل آجائیں تو ٹیم کا بیڑہ غرق ہو جاتا ہے۔ اسی طرح سیاست میں بھی اگر حکمران کے اکھڑ پن کی وجہ سے ساتھی اور اتحادی الجھ پڑیں تو حکومت کی کشتی میں سوراخ ہوتے دیر نہیں لگتی۔ گزشتہ روز وزیراعظم نے ٹیلیفونک رابطہ پروگرام کو جس طرح سیاسی تقریری مقابلہ حسن بنا دیا‘ اس پر سب حیران ہیں۔ اس پروگرام کے بیان میں واضح چڑچڑا پن اور ’’میری مرضی‘‘ عنصر غالب نظر آرہا تھا ۔ ان میں تحمل‘ بڑا پن اور ایک قائد جیسا وژن پایا جانا ضروری ہے۔ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے تو حکومت سے نکالے جانے کے بعد ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا المیہ گیت شروع کیا تھا جس پر آج تک ان کے مخالفین ہنستے ہوئے ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ خود تحریک انصاف والے بھی اس پر طرح طرح کے تبصرے کرتے رہے ہیں تو اب یہ کیا ہو رہا ہے۔ وزیراعظم جذباتی ہوکر ’’اگر مجھے نکالا گیا‘‘ کا راگ چھیڑ بیٹھے ہیں تو اپوزیشن کو خودبخود ان کا مذاق اڑانے کا موقع ہاتھ آگیا ہے۔ اب وہ کیسے کیسے تبصرے کرینگے۔ حکومت میں رہتے ہوئے یوں اشک بہانا‘ اَن دیکھے خطرات سے گھبرانا‘ خود کو ایک نڈر کپتان قرار دینے والے سیاستدان کو زیب نہیں دیتا۔ وہ تو 90 دن میں سب کچھ بدلنے آئے تھے مگر یہ کیا 4 سال میں بھی کچھ نہیں بدلا۔ شاید اسی پر خان صاحب غصے میں ہیں کہ لوگ یہ بات انہیں کیوں یاد دلاتے ہیں۔
٭٭……٭٭
شام میں تباہ حال شہری میزائلوں کے خول کو ہیٹر میں بدلنے لگے
چلیں اس بہانے انسانی آبادیوں کو چشم زدن میں ملیامیٹ کرنیوالے ان میزائل کی باقیات انسانوں کی زندگیاں بچانے کے کام توآ رہی ہیں۔ شام ایک سرسبز آباد اسلامی ملک ہے۔ جہاں ڈیڑھ ہزار سالہ اسلامی تاریخ و تمدن کے اثرات اسکے چپے چپے پر موجود ہیں۔ خلفائے راشدین کے دور میں یہ ملک مسلمانوں کے قبضے میں آیا تو اسلامی تہذیب و تمدن کا مرکز بن گیا۔ یہاں بنو امیہ کے دور سے لیکر موجودہ صدر بشارالاسدکے دور تک اسلامی شان و شوکت سے لے کر مسلمانوں کی بربادی تک کے قصے صرف کتابوں میں ہی پڑھے نہیں جاتے‘ دیکھے بھی جا سکتے ہیں۔ دمشق تو اسلامی سلطنت کا عروس البلاد تھا۔ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک یہ شہر آج بھی قائم ہے۔ مگر افسوس موجودہ دور میں مسلمانوں کی باہمی خانہ جنگی اور مسلکی اختلاف کی آگ نے اس ملک کو تباہ کر دیا۔ دو متحارب دھڑوں یعنی حکومت کی حمایت روس اور اپوزیشن کی حمایت امریکہ کر رہا ہے۔ دھڑا دھڑ اسلحہ دے کر مسلمانوں کو مسلمانوں کاگلا کاٹنے پر لگایا ہوا ہے۔ جدید اسلحہ کی بمباری سے لاکھوںشامی مسلمان ہلاک ہو چکے ہیں۔ باقی جو بچے ہیں‘ وہ بیماریوں‘ بھوک و افلاس اور موسمی سختیوں کا مقابلہ کرتے کرتے ادھ موئے ہو چکے ہیں۔ اس وقت شدید سردی اور برفباری میں البتہ ان خستہ حال شامیوں نے جان بچانے کیلئے گرے ہوئے ناکارہ میزائل کے خول کو مقامی طور پر آگ جلانے کے سٹوو یعنی ہیٹر میں بدل دیا ہے۔ آگ کی ان انگیٹھیوں کے اوپر بمبو یعنی نکاسی دھواں کی چمنی کے طور پر ان میزائلوں کے خول استعمال کرتے ہیں جوکمرے کی انگیٹھی کا دھواں چھت کے راستے باہر نکالتے ہیں۔ یوں آگ کی وجہ سے یہ لوہے کا خول بھی خوب گرم ہو کر تپتا ہے۔ جس کی وجہ سے کمرہ بھی گرم رہتا ہے۔ یوں زندگی ایک بار پھر قدم قدم پر بد سے بدتر حالات میں بھی موت سے نبردآزما نظر آتی ہے۔
٭٭……٭٭
مری میں برفباری تھم گئی لیکن شہر کی ویرانی نہ گئی
ظاہر سی بات ہے جب محبت کرنے والے ہی نہ ہوں گے تو محبوب کے دیدار کے لئے گلیوں کے چکر کون لگائے گا۔ شاعر نے کیا خوب کہا تھا ؎
اب تیری یاد کا مرہم ہے نہ آواز کا لمس
ایسی غربت تو پس مرگ ہوا کرتی تھی
جب شہر ہی قاتل بن جائے تو اسکے چاہنے والے روٹھ جاتے ہیں۔ کیونکہ جلتی آگ میں کوئی نہیں کودتا۔ مری تو برف کا شہر تھا۔ گھنے جنگلات‘ سرسبز نظاروں کا امین تھا مگر افسوس اسکے باشندوں نے اسے اپنی سنگدلی اور کرختگی، حرص اور لوٹ مار کی وجہ سے اسے جہنم کدہ بنا دیا۔ سیاح تو اس امید پر آتے ہیں کہ جہاں وہ رقم خرچ کرینگے‘ وہاں کے لوگ انہیں پیار محبت اور احترام دیں گے مگر مری میں تو ان سیاحوں کو تحفے میں حقارت ‘ نفرت اور موت ملی۔ اب سانحہ مری کے بعد ایک بار پھر متواتر کئی روز برفباری ہوئی‘ خوب کھل کر فٹوں کے حساب سے برف پڑی ۔ پہلے تو ایسا ہوتے ہی ہزاروں سیاح فوری طور پر مری کا رخ کرتے تھے مگر اس بار دیکھ لیں مری کی خالی سڑکیں‘ خالی ہوٹل‘ ویران بازار‘کھلی دکانیں اپنے چاہنے والوں‘ سیر کیلئے آنے والوں کی راہ تک رہے ہیں مگر یہ رحمت ان سے روٹھی ہوئی نظر آتی ہے۔ پہلے بھی مری والوں کی بدتہذیبی کی وجہ سے بائیکاٹ کیا تھا۔ مگر اس ایک سالہ بائیکاٹ کے باوجود مری والوں کی عادت نہیں بدلی۔ اب دیکھتے ہیں یہ ویرانی کیا رنگ لاتی ہے کیونکہ اس وقت تمام شاہراہیں کھلی ہیں۔برف ہٹا دی گئی ہے مگر شہر میں صرف 836 گاڑیاں نظر آتی ہیں۔ ہزاروں گاڑیاں غائب ہیں جن سے میلہ لگا رہتا تھا۔ سیاح روٹھ جائیں تو یہ ویرانی مقدر بنتی ہے۔
٭٭……٭٭
کرپشن میں پاکستان کی 16 پوائنٹ ترقی
اب اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم لاٹھی لیکر حکومت پر چڑھ دوڑیں۔ یہ کارنامہ انجام دینے میں‘ یہ رتبہ جلیلہ حاصل کرنے میں حکومت کیساتھ ساتھ ہم سب کا بھی پورا ہاتھ ہے۔ ہم میں سے کون ہے سوائے چند ایک فیصد لوگوں کے جن کے ہاتھ کرپشن کی آلودگی سے لتھڑے نہیں‘ جن کا دامن کرپشن کے دھبوں سے پاک ہے۔ ایک پرانی کہاوت ہے ’’جیسا راجا ویسی پرجا‘‘ یعنی جیسا حاکم ہو‘ ویسی رعایا ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں تو اوپر سے لیکر نیچے تک سب مایا جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جب پورا معاشرہ حکمران ہو یا عوام کرپشن کی دوڑ میں پوری طاقت کے ساتھ دوڑ رہے ہوں تو پھر لامحالہ ہمارا ملک نیچے کی بجائے کرپٹ ممالک کی فہرست میں بلند سے بلند ہوتا جائیگا۔ اگر کرپشن پر روک نہ لگی تو جلد ہی ہمارا ملک ٹاپ ٹین میں یا اگر مزید ہمت دکھائیں تو پہلی پوزیشن بھی حاصل کر سکتا ہے۔ کرپٹ ممالک کی فہرست میں گزشتہ برس ہمارا 124 واں نمبر تھا جس میں اب ترقی ہو گئی ہے اور ہم 140 ویں نمبر پر آگئے ہیں۔ یوں ایک سال میں ہم نے 16 درجہ ترقی کی ہے۔ یہ سب کچھ ان کے دور میں ہو رہا ہے جنہوں نے عوام کے سامنے ہر تقریر میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم 90 روز میں ملک سے کرپشن کا خاتمہ کر دیں گے۔ مگر افسوس خود ان کی حکومت کی مدت ختم ہو رہی ہے مگر کرپشن کا جاہ و جلال اسی طرح قائم ہے بلکہ اس کا جمال و کمال اور نکھر کر سامنے آرہا ہے۔
کیا کرتے تھے جو باتیں کرپشن ختم کرنے کی
ان کا یہ حوصلہ اقتدار میں آنے سے پہلے تھا
٭٭……٭٭