بھارتی یومِ جمہوریہ‘ کشمیریوں کا یوم سیاہ
دنیا بھر میں موجود کشمیری عوام آج 26 جنوری کو بھارتی یومِ جمہوریہ بطور یومِ سیاہ منا کر ہندو انتہاء پسند ریاست والا اصل بھارتی چہرہ دنیا کے سامنے اجاگر کررہے ہیں جبکہ بھارت کی مودی سرکار کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے پہلے ہی مقبوضہ وادی میں ان پر مظالم کا سلسلہ دراز کرچکی ہے جن پر پہلے سے عائد پابندیاں مزید سخت کر دی گئی ہیں۔ کشمیر میڈیا سروس اور عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوجی، پیرا ملٹری فورسز اور پولیس اہلکار تمام سڑکوں، گلی کوچوں اور شاہراہوں کی کڑی نگرانی کررہے ہیں تاکہ بھارتی نام نہاد یوم جمہوریہ کی تقریبات میں کسی قسم کا خلل پیدا نہ ہونے دیا جائے۔ اس سلسلہ میں بھارتی حکام اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اپنے افسران کو مشترکہ ناکے لگانے اور تمام سڑکوں اور علاقوں کی چیکنگ کو یقینی بنانے اور شاہراہوں پر رات کی گشت تیز کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس حوالے سے قابض حکام اور سکیورٹی فورسز نے سری نگر اور جموں کے ان علاقوں میں سکیورٹی انتظامات سخت کر دیئے جہاں آج 26 جنوری کو بھارت کے یومِ جمہوریہ کی تقریبات منعقد ہونگی۔
تقسیم ہند کے بعد بھارت نے 26 جنوری 1950ء کو برطانوی پارلیمنٹ کے 1935ء کا گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ منسوخ کرکے اپنا آئین نافذ کیا تھا جو بھارت کی آئین ساز اسمبلی نے ایک سال قبل 26 جنوری 1949ء کو منظور کیا تھا۔ اگرچہ اس آئین کی بدولت بھارت اپنے تئیں خود کو دنیا کی مستحکم جمہوریت قرار دیتا ہے مگر درحقیقت بھارت کا مستحکم جمہوریت والا سیکولر تشخص کبھی پنپ نہیں پایا اور اسکے ہندو انتہاء پسند لیڈران اپنے ہندوتوا اور اکھنڈ بھارت والے فلسفہ و عزائم کی بنیاد پر اسکے سیکولر چہرے پر اپنی مذہبی انتہاء پسندی کی کالک ملتے رہے ہیں چنانچہ آج عملی طور پر بھارت ایک ہندو انتہاء پسند ریاست میں تبدیل ہو چکا ہے جہاں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں تو کجا‘ نچلی ذات کے ہندوئوں کا بھی جینا ہمیشہ دوبھر رہا ہے جو بنیادی حقوق تک سے محروم ہیں۔
پاکستان کے ساتھ تو بھارت کا شروع دن سے خدا واسطے کا بیر اسی لئے ہوا کہ اسکی تشکیل ہندوئوں کے مہابھارت کے خواب چکناچور کرتے ہوئے بھارت کی کوکھ میں سے ہوئی تھی اس لئے بھارت نے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنا اپنی بنیادی پالیسی کا حصہ بنالیا۔ اس پالیسی کے تحت ہی بھارت نے تقسیم ہند کے طے شدہ فارمولے کے باوجود کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے دنیا بھر میں اٹھنے والی آوازوں کو پرکاہ کی حیثیت نہ دیتے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کو روندتے ہوئے بھارت کی موجودہ مودی سرکار جو درحقیقت ہندو دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کی نمائندہ حکومت ہے‘ اپنے ناجائز زیرقبضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے اسے مستقل ہڑپ بھی کرچکی ہے اور اس طرح یومِ جمہوریہ کی بنیاد بھارتی آئین کا بھی اقوام عالم میں تماشا بنا چکی ہے۔
اب تو مودی سرکار میں موجود ہندو انتہاء پسندوں کی جنونیت اس انتہاء کو پہنچ چکی ہے کہ وہ بھارتی آئین میں موجود ’’جمہوریہ‘‘ کے تکلفات سے بھی بھارت کو آزاد کرانے کے درپے نظر آتے ہیں چنانچہ حکمران بی جے پی کے ہندوتوا سوچ کے حامل حلقوں میں بھارتی آئین کو سیکولر جمہوری آئین سے نکال کر اسے ہندو غلبے والی ریاست کے آئین میں تبدیل کرنے کیلئے زوردار بحث مباحثہ چل رہا ہے اور بی جے پی کی بھارتی لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں اکثریت کا فائدہ اٹھا کر سیکولر کا لفظ بھارتی آئین سے حذف کرانے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے جیسے پانچ اگست 2019ء کو مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر ریاست کی خصوصی آئینی حیثیت کی ضامن آئینی دفعات 370 اور 35۔اے کو آئین سے حذف کراکے اسے دو الگ الگ حصوں میں بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنایا تھا۔ یہی ہندوتوا سوچ کی وہ مکاری ہے جس نے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے سنگین خطرات پیدا کئے اور عالمی قیادتوں و نمائندہ عالمی اداروں کو بھارتی توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند باندھنے کی فکر لاحق ہوئی۔
مودی سرکار کو شاید یہ زعم تھا کہ اس نے اپنے پانچ اگست 2019ء والے آئینی شب خون کے ذریعے کشمیر کو مستقل ہڑپ کرکے اس کا ٹنٹا ختم کردیا ہے مگر کشمیری عوام نے سوشل‘ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو بروئے کار لا کر دنیا کے کونے کونے تک توسیع پسندی والے بھارتی مکروہ عزائم کو اجاگر کرکے ہندو کی برتری والا بھارتی زعم توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
آج دنیا اس حقیقت سے بھی بخوبی آشنا ہے کہ 1950ء سے اب تک بھارت کے آئین میں کی گئی سو سے زیادہ ترامیم بھارتی اقلیتوں کو دبانے‘ انکے بنیادی حقوق سلب کرنے اور ہندوئوں کو غلبہ دلانے کیلئے ہی کی گئی ہیں اس لئے موجودہ بھارتی آئین کی بنیاد پر بھارت کو دنیا میں ایک جمہوری سیکولر ملک کے طور پر تسلیم اور قبول نہیں کرایا جا سکتا جبکہ اس بھارتی آئین کی بنیاد پر بھارت کیلئے یومِ جمہوریہ منانے کا بھی کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ اسی تناظر میں کشمیری عوام بھارتی یوم جمہوریہ کو دنیا بھر میں یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں جنہوں نے بھارتی مظالم کے آگے نہ اپنی آزادی کی جدوجہد کبھی مدھم پڑنے دی نہ اس جدوجہد میں بے بہا قربانیوں کی داستانیں رقم کرنے میں کبھی کوئی کسر چھوڑی۔ آج بھارت کی مودی سرکار کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے دنیا بھر سے پڑنے والے دبائو کی موجودگی میں یومِ جمہوریہ مناتے ہوئے اپنے لئے ہزیمتوں اور نامرادیوں کا مزید اہتمام کریگی کیونکہ جس آئین کی بنیاد پر بھارتی یوم جمہوریہ کا جواز نکالا جاتا ہے وہ خود ہندو انتہاء پسندوں کے ہاتھوں پرزے پرزے ہو رہا ہے۔ آج دنیا کو بھی مکمل ادراک ہے کہ علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کی خاطر ہندو انتہاء پسندی کا راستہ روکنا ضروری ہے۔ یہ راستہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حقِ خودارادیت دیکر ہی روکا جا سکتا ہے جس کا دو روز قبل یواین سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹرس نے تقاضا بھی کیا ہے۔ عالمی قیادتوں کو بہرحال اس پر متفق ہو کر عملی قدم اٹھانا ہوگا۔