سٹیٹ بنک کی مالیاتی پالیسی اور مہنگائی کا جن
سٹیٹ بنک آف پاکستان کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے آئندہ ہدوماہ کیلئے پالیسی کا اعلان کر دیا ہے جس کے مطابق شرح سود 9.95 فیصد کی موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ رواں مالی سال معاشی ترقی کی شرح نمو 4.5 فیصد رہے گی اور جاری کھاتے کا خسارہ 13 سے 14 ارب ڈالر تک جا سکتا ہے۔
پاکستان کے قومی بنک کی طرف سے جاری کردہ مانیٹری پالیسی ملک کی اقتصادی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔ اس وقت ملک شدید قسم کے مالیاتی بحران میں مبتلا ہے۔ برآمدات اور درآمدات میں خلیج بڑھنے کے باعث خسارہ مسلسل بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ بیرونی ممالک سے سرمایہ کاری کی رفتار انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے بھی ہم قرض لینے پر مجبور ہیں۔ ضمنی فنانس بل ہماری بدترین اقتصادی صورتحال کی چغلی کھا رہا ہے جس کے ذریعے 343 ارب روپے عوام الناس سے ٹیکس کی شکل میں وصول کئے جائیں گے۔ اندرونِ ملک معاشی سرگرمیاں ماند پڑ چکی ہیں۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ عوامی مسائل کو مزید گھمبیر کئے ہوئے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی اور گیس کے نرخوں میں ہر پندرہ روز کے بعد اضافے نے مالی سال کے پیش کردہ بجٹ کے اعدادوشمار کو بے معنی بنا کے رکھ دیا ہے‘ لیکن اس کے باوجود ہمارے وزیر توانائی حماد اظہرنے معاشی نمو میں بڑھوتری کی خوشخبری سنا رکھی ہے اور اب سٹیٹ بنک آف پاکستان نے بھی اپنی مالیاتی پالیسی میں ایک طرف شرح سود کو 9.75 فیصد برقرار رکھنے کا عندیہ دے رکھا ہے ۔ اس طرح اعلیٰ حکام کی طرف سے مالیاتی اعدادوشمار کے ہیر پھیر کے ذریعے عوام الناس کو جس طرح خوشحالی کا ’’لالی پاپ‘‘ دیا جا رہا ہے‘ اس نے عوام کو مزید پریشانی اور ذہنی اذیت سے دوچار کر دیا ہے۔ اب جبکہ ملک میں مختلف نوعیت کی افواہیں پھیلی ہوئی ہیں اور حکومت کے چل چلائو کی باتیں ہو رہی ہیں‘ ان حالات میں حکومت کیلئے اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لیتے ہوئے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے اور انہیں مالی آسودگی اور ذہنی سکون بہم پہنچانے کیلئے فی الفور اقدامات کرے تاکہ پیدا ہونے والی اضطراب‘ بے چینی کی فضا کا خاتمہ ہوسکے۔