کیا سود ناگزیر ہے؟

سود ایک عظیم معصیت، کبیرہ گناہ، نادار ومفلس اور ضرورت مند انسانوں کا معاشی قتل، سرمایہ دار، جاگیر دار، صاحبِ ثروت اور مال داروں کے پاس ایسی معاشی تلوار ہے، جس سے نہ صرف دوسروں کے وسائل کا خاتمہ کیا جاتا ہے، بلکہ دوسروں کے وسائل بھی ہتھیا لے جاتے ہیں۔سود معیشت کشی اور بد ترین شرعی جرم ہے۔ بلاشبہ اس ناپاک عمل سے دولت چند ہاتھوں میں سُکڑ کر رہ جاتی ہے۔ غریب ممالک، اقوام، افراد سودی نظام میں جکڑ کر غریب جبکہ امیر ممالک، اقوام، ادارے اور افراد امیر ترین ہو کر اپنی بالادستی کے ذریعے زیرِ دست ممالک، اقوام، افراد کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیتے ہیں۔ سودی بالادستی کے ذریعے سرمایہ دار ممالک، ادارے، افراد، بین الاقوامی اور قومی سطح پر سودی قرضوں کے نیچے دبے ممالک افراد، اداروں پر نہ صرف حکومت کرتے ہیں بلکہ مرضی کے احکام جاری کرتے ہیں۔ جنہیں ماتحت اقوام ممالک وافراد کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔ نتیجتاً قرض خواہ سود خور کے ہاتھوں اپنی ہر چیز گروی رکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
سود کی حقیقت پر اگر غور کیا جائے تو یہ انسانیت پر المناک ظلم اور جبر کے سوا کچھ بھی نہیں۔ سود خور دوسروں کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قرض جاری کر کے قرض خواہ کی رہی سہی جمع پونجی ہتھیا لیتا ہے۔ بسا اوقات بے چارے قرض خواہ کو اپنے گھر، روزگار سے بھی محروم ہونا پڑتا ہے۔ جاہلیت کی جب انتہاء ہوتی ہے تو سود خور قرض خواہ کے بچوں اور اس کی ذات کو بھی اپنی ملکیت قرار دیتا ہے۔ شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے سود کی ستم ظریفی کا ایک حیران کن واقعہ نقل کیا ہے، جسے قارئین کی دل چسپی کے لیے نقل کیا جارہا ہے: یہ عیسائیوں کی تاریخ کا مشہور اور سچا واقعہ ہے، جسے انگریزوں کے مشہور ڈرامہ نویس شیکسپئیر نے اپنے فصیح وبلیغ انداز میں بیان کیا ہے۔ ایک یہودی تھا جس کا نام شائیلوک تھا۔ ایک شخص بیچارہ فقر وفاقہ کا شکار مفلس ’’شائیلوک‘‘ یہودی کے پاس گیا۔ اس کے پاس پیسے نہیں تھے چنانچہ اس سے کہا: ’’مجھے کچھ پیسے چاہئیں، گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہے۔‘‘شائیلوک نے کہا: ’’جتنے پیسے چاہئیں لے لو، لیکن شرح سود پر دوں گا، جس کی شرح یہ ہو گی۔‘‘ مفلس کہنے لگا: ’’میں کیا کروں مجبور ہوں، اب میرے پاس جینے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ جو بھی شرط تم کہتے ہو، اس کو سرخم تسلیم کرتا ہوں۔‘‘
چنانچہ شرط مان لی اوراپنی ضرورت پوری کر لی۔ لیکن جب ادائیگی کا وقت آیا تو اس کے پاس پیسے نہیں تھے، شائیلوک اس کے گھر پہنچ گیا۔ جب اس سے پیسوں کا مطالبہ کیا۔تو مفلس نے کہا: ’’ٹھیک ہے مت دو البتہ جو سود تمہارے اوپر لگا تھا، اس سے دو گنا لگا دیتا ہوں جب اگلی مرتبہ پیسے دو گے تو دوگنا کر کے دینا۔‘‘
مفلس نے کہا: ’’ٹھیک ہے، مجبور ہوں کیا کروں!
چنانچہ پھر وقت آیا تو اس کے پاس پیسے پھر نہیں تھے، چنانچہ وہ سود دو گنا چوگنا کرتا چلا گیا۔ یہاں تک جس جھونپڑے میں وہ مقروض رہتا تھا، سود اس کی قیمت سے بھی آگے بڑھ گیا۔ جب پھر بھی قرضہ ادا نہ کیا، تب شائیلوک نے کہا: ’’دیکھو! اب تو معاملہ حد سے آگے بڑھ گیا ہے۔ پہلے تو میں سوچتا تھا، میرا قرضہ وصول نہیں ہو گا تو تمہارا یہ گھر بیچ کر پیسے وصول کر لوں گا۔ اب تو بات تمہارے گھر کی قیمت سے بھی آگے بڑھ گئی ہے، گھر بھی بیچوں تو بھی میرے پیسے وصول نہیں ہو پائیں گے۔ لہٰذا اب تو ایک ہی راستہ ہے اگر تم نے فلاں تاریخ تک میری اصل رقم اور سود کی ادائیگی نہ کی تو تمہارے جسم سے ایک پونڈ گوشت کاٹوں گا۔‘‘مفلس نے کہا: ’’ٹھیک ہے، میں مجبور و لاچار ہوں، کیا کروں؟ وقت پر ادائیگی کی کوشش کرتا ہوں، اگر نہ کر سکا تو گوشت کاٹ لینا۔‘‘پھر وقت آگیا لیکن رقم اتنی بڑھ گئی کہ ادائیگی کا راستہ ہی نہیں تھا۔ جب ادائیگی نہیں کی تو ’’شائیلوک‘‘ مفلس کے گھر پہنچ گیا اور اس سے کہا: ’’اب بھی تم نے رقم کی ادائیگی نہیں کی، اس لیے اب تمہارا ایک پونڈ گوشت کاٹتا ہوں۔‘‘مفلس کی بیوی نے کہا: ’’گوشت کاٹ کر تمہیں کیا فائدہ حاصل ہو گا؟یہ بات سن کر شائیلوک نے گوشت تو نہیں کاٹا البتہ بادشاہ کے دربار میں دعویٰ دائر کر دیا۔شائیلوک نے بادشاہ سے کہا: ’’اس شخص نے اتنے پیسے ادھار لیے تھے اور اس رقم پر اتنا سود بن گیا اور آخر میں جا کر ایک پونڈ گوشت کاٹنے کی بات ہوئی۔ چنانچہ معاہدے کی پابندی ضروری ہے۔‘‘بادشاہ نے مفلس سے کہا: تم بتاؤ، کیا بات ہے؟مفلس نے کہا: ’’میں نے معاہدہ تو مجبوری کے تحت کیا تھا کیونکہ اس وقت میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب بھی نہیں ہیں، میں کیا کروں؟‘‘شائیلوک نے کہا: ’’مائی لارڈ! میں تو آپ سے انصاف طلب کرتا ہوں۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے جو معاہدہ طے پایا تھا اس کی پابندی کی جائے۔‘‘بادشاہ نے کہا: ’’واقعی بات تو ٹھیک ہے، انصاف تو یہی ہے جو معاہدہ کیا گیا تھا، اس کو پورا کیا جائے۔‘‘ اس پر مفلس کی بیوی نے کہا: ’’جہاں پناہ! اگر آپ کی اجازت ہو تو، ایک بات عرض کروں؟‘‘ بادشاہ نے کہا: جی ہاں! اپنی بات پیش کرو!مفلس کی بیوی نے ایک تقریر کی اور کہا: ’’جناب والا! بے شک آپ انصاف کرنے کے لیے بیٹھے ہیں اور آپ کے خیال میں انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ اس کا گوشت کاٹ دیا جائے۔ لیکن میں آپ سے ایک بات پوچھتی ہوں کہ آپ کو بھی اپنے خداکے پاس جانا ہے۔ کیا آپ خدا سے انصاف کی توقع رکھتے ہیں کہ وہ آپ کے ساتھ انصاف کرے؟ اگر وہ ذات انصاف کرے تو بتائیے! میرا اور آپ کا کیا ٹھکانا ہو گا؟ کیونکہ اگر وہ ہماری شان کے لحاظ سے انصاف کرے، تو ہم سب کا ٹھکانا جہنم میں ہو گا۔ لہٰذا ہم سب انصاف سے زیادہ ایک اور چیز کے محتاج ہیں اور وہ ’’اللہ تعالیٰ کا رحم‘‘ ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کارحم شاملِ حال نہ ہو، تو ہم میں سے کوئی بھی نجات نہیں پاسکتا۔لہٰذا آپ بحیثیت بادشاہ ہونے کے زمین پر اللہ کے خلیفہ ہیں۔ آپ ’’ظل اللہ فی الارض‘‘ ہیں، زمین پر اللہ کے خلیفہ ہیں۔ جب آپ اپنے لیے اللہ سے رحم مانگتے ہیں، تو پھر اللہ کے بندوں پہ بھی رحم کریں اور ہمیشہ انصاف انصاف کی رٹ مت لگائیں۔‘‘بادشاہ کے دل پر اس کی فصیح وبلیغ تقریر اثر کرگئی اور اس کے دل میں نرمی پیدا ہوگئی۔ بادشاہ نے کہا: ’’یہ بات صحیح ہے، ٹھیک ہے انصاف کا تقاضا تو یہ ہے اس کا گوشت کاٹ دیا جائے لیکن رحم کا تقاضا تو یہ ہے گوشت نہ کٹوایا جائے، لہٰذا میں اس کے خلاف فیصلہ دیتا ہوں۔‘‘میں یہ بتا رہاتھا کہ شائیلوک نے کہا انصاف ہونے کے معنی یہ ہیں کہ گوشت کاٹا جائے، نہ کاٹا جائے تو ظلم ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ انصاف یہ ہے اور خود مستقرض نے بھی اس کے انصاف ہونے سے انکار نہیں کیا۔ اس کی بیوی نے اپنی تقریر میں انصاف ہونے سے انکار نہیں کیا، لیکن آگے رحم کی بات کی۔ (انعام الباری۔ ص: ۱۵۹۔۱۵۷)
قارئین! آپ نے اندازہ لگایا کہ سود کتنا بے رحم نظامِ معیشت ہے۔ ہم اپنے گردوپیش کے حالات کا جائزہ لیں، تو سود کی وجہ سے پسماندہ طبقے پر طرح طرح کے مظالم ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لوگ بینکوں، اداروں، سود خور افراد کو اصل رقم سے کئی گنا زیادہ رقم کی ادائیگی کرنے کے باوجود مقروض ہی رہتے ہیں۔ قرض کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے سود میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ نتیجتاً بطور ضمانت رکھی گئی جائیداد، مکان تک سے قرض خواہ ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ ایسے واقعات کی قلت نہیں کہ قرض خواہ اپنی زمینوں، دکانوں اور فیکٹریوں حتیٰ کہ رہائشی مکان سے ہاتھ دھو کر بے گھر اور بے گار ومددگار ہو گئے۔ یہ تو سود کا دنیوی نقصان ہے۔ جبکہ دینی واخروی طور پر سود کبیرہ گناہ، حق تعالیٰ سے بغاوت، اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے کھلم کھلا اعلانِ جنگ ہے۔