اعتماد کا فقدان اور ہماری ڈانواڈول ڈپلومیسی

گزشتہ سے پیوستہ
ٹیسٹوں میں کرونا مثبت آنے کی سزا کے طور پر PIA کیخلاف اٹھایا گیا ہے. دوسری طرف برطانیہ میں وزیراعظم پاکستان کے ذاتی دوست جب وزیراعظم کے منصب پر براجمان ہوئے تو عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین کیخلاف انکی مدد کیلئے آس سی لگا لی تھی. اس دوست کی برطانوی حکومت نے حال ہی میں براڈ شیٹ کو رقم دلانے کے لیے ہمارے سفارتی مشن کا اکاؤنٹ منجمد کیا تو اس ذلت آمیز اقدام کیوجہ سے زبردست سفارتی ڈیڈ لاک پیدا ہوسکتا تھا. جبکہ نواز حوالگی کی بابت عمران حکومت کی تمام امیدیں تب خاک میں مل گئیں جب برطانوی وزیراعظم نے اپنے پرانے دوست کو کوڑا سا جواب دیدیا. برطانوی حکومت نے ایک مراسلے کے زریعے انہیں نواز شریف کی حوالگی کیلئے برطانوی عدالتوں میں قانونی چارہ جوئی کا مشورہ دیا ہے. مگر بقول شخصے ایسا کرنے کیلئے ثاقب نثار اور جسٹس کھوسہ کے فیصلوں کو جائز اور قرینِ انصاف ثابت کرنے جیسی پہاڑ کی چوٹی سر کرنی پڑے گی. اگر نئے پاکستان کی اناڑی حکومت ایسا کرے تو ایک نیوٹرل پلیٹ فارم پر شریف فیملی کو بھی اپنے خلاف پاکستانی عدالتی فیصلے فراڈ ثابت کر کے دنیا کو دکھانے کا ایک سنہری موقع مل جائے گا کہ کیسے پاکستان میں انکی پولیٹیکل وکٹیمائزیشن کی گئی، اور کیسے انکے خلاف بوگس سیاسی فیصلوں کیلئے زبردست "جوڈیشل انجینئرنگ" کی گئی.
ترکی سے بھی یکطرفہ پیار کی پینگیں زیادہ دیر چلتی نظر نہیں آتیں. عربوں کیخلاف پروپیگنڈے سے بھرپور اور یورپی تمدن پر مبنی انکے ڈراموں کی ہم جتنی بھی بڑی مارکیٹ بن چکے ہیں، مگر ہمارے اسلامی و مشرقی طرز کے کسی بھی ڈرامے کو ترکی اپنے ہاں دکھائے جانے کی اجازت نہیں دیگا. کیونکہ انکی یکطرفہ پالیسی صرف اپنے مغربی و سیکولر کلچر کو فروغ دینا، اپنے نظریات فروخت کرنا اور مسلمانوں کو تقسیم کرنے والی تاریخ کی اپنی ورڑن کا پرچار کرنا ہے. اسکی پالیسی ہے کہ اپنا پروپیگنڈا مواد پوری اسلامی دنیا میں پھیلائے تاکہ آئندہ چوہدراہٹ یا خلافت کیلئے دعویٰ بھرپور رہے. یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ لاہور میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ سنبھالنے والی ترک کمپنی کو فارغ کئے جانے کے بعد اردگان بھی نئے پاکستان سے کچھ زیادہ خوش نہیں. ہر ملک کیطرح ترکی کی ڈپلومیسی کے پیچھے بھی دیرپا قومی مفادات ہیں. مگر ہم؟ کیا ہمارے دیرپا قومی مفادات نہیں؟ اگر ہمارے مفادات ہیں تو ہم کسی کے کہنے لگانے پر کاغذ کی کشتی پہ سوار بھلا کیوں ہو گئے.امریکہ اور سعودی عرب کیخلاف ترکی کی قربتیں حاصل کرنے کے پیچھے جو عوامل کارفرما ہیں، ان میں سرِفہرست ترکی کا وہ دیرینہ ایجنڈہ ہے جس کا مقصد باقی با اثر اسلامی ممالک کو اسکی چوہدراہٹ یا خلافت کے مقابلے میں آنے سے روکنا ہے. یہ اسلامی دنیا کی لیڈرشپ کا تنازع ہے، جسکی وجہ سے اسلامی دنیا کا شیرازہ ہی بکھرنے لگا ہے. سعودیہ کیطرف سے اسرائیل کو ممکنہ طور پر تسلیم کرنے پر چیں بچیں ہونا دراصل ترکوں کا سعودیہ کیخلاف بغض پر مبنی صرف ایک سیاسی ایشو ہے، جسکی جڑیں تاریخ میں پیوست ہیں تو مستقبل کی محاذ آرائی بھی واضح ہے. کیا ہی بہتر ہوتا کہ ترکی اپنی نئی چوہدراہٹ یا خلافت کے احیاء کیلئے اسلامی دنیا کی تقسیم کے درپے نہ ہوتا.
مگر جب تلخ تاریخ کے تار چھیڑنے ہی ہیں تو پھر یکطرفہ طور پر ایک رْخ ہی کیوں؟ حقیقت کا دوسرا رْخ یا جوابی بیانیہ بھی دیکھنا ضروری ہے. مردِ بیمار یعنی زوال پزیر ترکی سے آزادی صرف سعودیوں نے نہیں بلکہ یورپی، افریقی اور دیگر عرب اقوام نے بھی حاصل کی تھی. مگر ترکی کے جس بغض و عداوت کا نشانہ سعودیہ بنا، کوئی اور ملک ہرگز نہیں بنا. اگر عربوں کا آزادی حاصل کرنا غداری ہے تو جن عرب قوتوں نے مقامی حکمرانوں کیخلاف عجمی ترکوں کا ساتھ دیا تھا تو وہ بھی تو بڑے غدار ہوئے. اور غداروں کیوجہ سے چھن جانے والا اقتدار انہوں نے صدیوں بعد واپس حاصل کیا تو پھر یہ تو شجاعت ہے. آخر غداری کیوں؟ جب ترک تو تھے مگر ترکی نام کی کسی ریاست کا وجود ابھی نہیں تھا، بلکہ سلجوق سلطنت کے کھنڈرات سے اٹھنے والی سلطنت عثمانیہ کو خلافت کا نام دیا گیا تو تب عرب علاقوں کا کنٹرول ترک منگولوں کو طشتری پہ رکھ کر قطعاً پیش نہیں کیا گیا تھا، بلکہ منگول نو مسلموں نے عربوں کا خون بہا کر ہی انکے علاقے ہتھیائے تھے. رہی بات خلافت کے استحقاق کی تو شروع میں یہ شرف مدینہ، کوفہ، دمشق، قاہرہ اور بغداد کو حاصل رہا. ان میں سے کسی نے دوبارہ اگر خلافت کا دعویٰ نہیں کیا تو بلاد العجم کے ترکوں کا مستقبل کی ممکنہ خلافت کیلئے دعویٰ آخر چہ معنی؟ وہ ترک عثمانی جو پہلے ہی ساڑھے چھ سو سال تک حجازِ مقدس سمیت تین براعظموں میں واقع پرشکوہ اسلامی سلطنت پر بلا شرکت غیرے حکمران رہے. کیا اب آئندہ کیلئے بھی یہ منصب صرف انہی کا حق ہے؟ اب بھلا انڈونیشیا، ملائشیا، پاکستان یا سعودی عرب کا حق کیوں نہیں ہو سکتا؟(جاری ہے)
دیگر یہ کہ، شعور سے عاری ہمارے حکمرانوں کو سوچنا چاہئے کہ سعودی منشاء کیخلاف اردگان جس خلافت کا احیاء چاہتا ہے، آیا من حیث القوم تمام پاکستانی اس خلافت کو دل سے تسلیم کر بھی سکتے ہیں. یاد رہے، سلطنت عثمانیہ کے دور میں بھی مسلمانانِ ھند کبھی عثمانیوں کے زیر کنٹرول نہیں رہے تھے. ہمارے وہ ادارے جو راتوں رات وزیراعظم کو چلتا کرتے ہیں. کیا اس خلافت کے آگے اپنے اختیارات اور من مانیوں کو سرنڈر کریں گے؟
سعودیوں کی مخالفت کے باوجود اگر آپ اردگان کی مجوزہ خلافت کیطرف بڑھتے ہیں تو کیا ہمارے شیعہ عوام اور ھمسایہ ایران ایسا پسند کرینگے؟ ہرگز نہیں، ایران اور ایران نواز اسلامی ممالک بھی ترک خلافت کو ایسے ہی نہیں مانیں گے جیسے خلافت عثمانیہ کو ایران نے پہلے بھی کبھی نہیں مانا تھا. بلکہ ایران و سعودیہ سمیت صرف خلیج کے ممالک ہی چیلنج نہیں کرینگے بلکہ افریقی مسلمان ممالک بھی ترک طاقت کیخلاف بھرپور مزاحمت کرینگے. جبکہ یورپ میں آزاد تشخص رکھنے والے چند مسلم ممالک بھی اول تو اپنااقتدار اعلی کسی چوہدری یا خلافت کیسپرد کریں گے نہیں، اور اگر ایسا کرنا بھی چاہئیں تو یورپ اس چیز کی اجازت کبھی نہیں دیگا. الغرض، یہ اردگانی خلافت کسی کیلئے دماغ کا خلل یا نیت کا فتور نہ بھی ہو تو خصوصاً ہمارے لئے ایک "سہانا سراب" اور پیچیدہ "طلائی دلدل" ضرور بن سکتی ہے.
رہی بات اسرائیل کو تسلیم کرنے کی تو یاد رکھنا چاہیے کہ اسکے وجود میں آتے ہی ترکی نے اسے نا صرف تسلیم کیا تھا بلکہ آج بھی اسرائیل سے اسکے بہترین معاشی، سائنسی و سیاحتی روابط قائم ہیں اور جو بارہا پاکستان کو بھی اسے تسلیم کرنے کی ترغیبات دے چکا ہے. خلافت کے دعویدار اس ترکی کا اب عربوں کے ایسا کرنے پر اتنا چیں بچیں ہونا اگر منافقت نہیں تو بھلا اس رویے کو کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ ذکر ہو چکا ہے کہ اصل مسئلہ اسرائیل تو ہے ہی نہیں بلکہ اصل محرکات چوہدراہٹ پر مبنی دیرینہ عزائم ہیں. سعودیہ کے ممکنہ طور پر اسرائیل کے تسلیم کرنے کو اب ترک ایماء پر ہمارے یہاں جو اتنا گھناؤنا ایشو بنایا جا رہا ہے. کیا ہمیں بھولنا چاہیے کہ ہم خود بارہا ایسا کرنے کی نا صرف کوشش کر چکے ہیں، بلکہ آئندہ بھی یقیناً ہمیں ایسا کرنا پڑ سکتا ہے؟ عوام کو میڈیا کے زریعے اس ایشو پر سعودیہ کیخلاف برانگیختہ کرنے کے بعد جب ہم خود ایسا کریں گے تو کیا اسے تھوک کر چاٹنا نہیں کہا جائے گا؟ تمام اسلامی ممالک کے اسے انفرادی طور پر تسلیم کرنے کی بجائے اگر ایسا بطور اجتماعی اقدام ہوتا تو یقیناً اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم کے زریعے بیت المقدس اور فلسطین کے ایشو پر کچھ ممالک کی قابل اعتماد ضمانتیں بھی حاصل کی جا سکتی تھیں. اعتماد کی بات کریں تو انتہائی افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عالمی طور پر ہمیں اعتماد کے بے پناہ فقدان کا سامنا ہے. حال ہی میں براڈ شیٹ کے مالک شکایت کرتے پائے گئے کہ جب جب انہوں نے پاکستانیوں کی ناجائز دولت کا سراغ لگانے کے بعد مشرف کو بتایا تو چند روز بعد وہ رقوم اکاؤنٹ سے شفٹ کروا لی جاتیں. کیونکہ خود مشرف ان لٹیروں کو اپنی حکومت کا حصہ بنا لیتا. یوں معاہدے کی خلاف ورزی پر مبنی اس اقدام سے کمپنی کمیشن سے بھی محروم کر دی جاتی. کیا افغانستان میں طالبان کیخلاف برسرپیکار امریکی افواج کو بھی پاکستان سے ایسی شکایات نہیں تھیں؟ انکے بقول، وہ جب بھی اپنا اگلا نشانہ پاک افواج کو بتاتے، وہ اطلاع فوراً طالبان کو کر دی جاتی. جو اپنا بچاؤ تو کر ہی لیتے، الٹا امریکیوں کو جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا. اسی اعتماد کے فقدان ہی کیوجہ سے ھمسایہ برادر ممالک ایران و افغانستان سے بھی تعلقات ڈانواڈول رہے. عالمی معاہدات سے روگردانی پر ہمیں حال ہی میں پانچ ارب ڈالر کی خطیر رقم کا جرمانہ ہو چکا ہے. رینٹل پاور اور اس سے قبل موٹر وے کے معاملے پر ہمارے ترک کمپنیوں کیساتھ بھی ایشوز رہے. بروڈ شیٹ بھی اسی کی ایک مثال ہے. جبکہ اب چین اور ملائشیا بھی ہمارے خلاف انتہائی اقدام اٹھا چکے ہیں. ٹرسٹ ڈیفیسیت کے علاوہ اس ساری نئی ہلچل کے پیچھے کہیں سعودیہ کی خاموش شٹل ڈپلومیسی کیخلاف ہمارے دوسرے کیمپ کے دوستوں کا ردعمل تو نہیں؟ پہلے قطر اور پھر پاکستان کیساتھ بگرتے تعلقات کیبعد سعودی عرب نے حال ہی میں خاموش سفارتی کوششوں کے سلسلے شروع کئے تھے. جس کے بعد قطر سے اسکے تعلقات کی بحالی شروع ہو چکی ہے. جبکہ پاکستان کیساتھ بہتری کی حوصلہ افزا نوید ہے. جس کیخلاف ردعمل کے طور پر سعودی مخالف کیمپ کے ہمارے دوست ممالک "شاید" ہمیں باز رکھنے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں. مگر ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ سفارکاری کے میدان میں ایک طرف جھکاؤ کی بجائے امریکہ و چین اور سعودیہ و ایران کے بیچ اعتدال پر مبنی توازن قائم کریں. دوست ضرور بنائیں مگر قبلہ و کعبہ اور آقا ہرگز مت بنائیں. ایکطرف سے پچاس جوتے کھانے کے بعد دوسری طرف سے بھی سو جوتے کھانے کی بجائے ہم جتنا جلد یہ سمجھ جائیں اتنا ہی ملک و قوم کے وقار کیلئے بہتر ہے. مگر کیا ہمارے رویے واقعی اتنے معقول ہیں بھی؟