بات تو صحیح ہے

یہ بات تو صحیح ہے کہ عام طور پر لوگوں کو عمران خان کی حکومت کی کارکردگی سے مایوسی ہوئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انصاف اور احتساب کے وعدے اب تک ایفا نہیں ہوئے ہیں۔ بدعنوانوں کے خلاف مہم اب الزامات اور جوابی الزامات کی مہم میں تبدیل ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ موجودہ حکومت کے دوران معاشی بحران سنگین ہوئے ہیں، ملک پر قرضوں کے حجم میں اضافہ ہوا ہے، پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کی معاشی ٹیم کی بے بسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسے کالا دھن باہر لانے کے لیے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم لانا پڑی ہے، ایک سال کے عرصے میں مکانات اور عمارتوں کی تعمیر میں خرچ ہونے والے سرمائے کے بارے میں کوئی پوچھ گچھ نہ کرنے کی پالیسی اپنانے پر مجبور پڑا ہے۔ تاہم اس فیصلے سے تعمیرات بڑھی تو ضرور ہیں لیکن کراچی میں غیر قانونی تعمیرات اور مقررہ حد سے زیادہ اونچی عمارتیں بنانے کے رجحان میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ دکھاوے کی توڑ پھوڑ تو ضرور ہوتی ہے لیکن چند دن بعد وہ عمارت دوبارہ بن جاتی ہے اور لوگ وہاں رہنا شروع کر دیتے ہیں جس کے بعد خلاف ضابطہ تعمیر کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا کوئی کارکن یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ انہیں خبر نہیں ہوئی کیونکہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے اہلکار اور ٹھیکیدار ایک ہی ہیں۔ عام طور پر ٹھیکیدار تو ہمیشہ ہی سے ڈنڈی مارنے والے رہے ہیں لیکن کراچی کے پرانے مکانوں دیکھ کر یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں کسی کو خلاف ضابطہ تعمیرات کرنے کا خیال بھی نہیں آتا تھا۔ لیکن گزشتہ پچیس تیس سال کے دوران خوشحال آبادیاں بھی جنجال بنا دی گئی ہیں۔ یہ بات تو صحیح ہے کہ مایوسیوں کا گراف ہمیشہ یکساں نہیں رہتا بلکہ اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پچھلی حکومتوں میں شامل رہنے والے وزرا پرانے مسئلوں کے روایتی حل ڈھونڈنے کو ہی سمجھتے ہیں۔ بجلی مہنگی کر دینے سے گردشی قرضہ ختم تو نہیں ہوگا لیکن عوام پر ضرور بوجھ بڑھ جائے گا۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ بجلی چوری روکنے کے لیے کچی آبادیوں کے خلاف مہم شروع کر دی جائے لیکن انڈسٹریل ایریا کی طرف رخ نہ کیا جائے، جہاں ایک انڈسٹری ایک شفٹ میں اتنی بجلی چوری کر لیتی ہے جتنی کچی آبادی کے سو مکان ایک مہینے میں چوری نہیں کر پاتے، لیکن یہ بجلی کی بڑی چوریاں بجلی کے محکمے کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے ہوتی ہیں اس لیے خاموشی رہتی ہے۔ حکومت کم از کم یہ تو معلوم کر لے کہ کون کون سے علاقوں میں لائن لاسز زیادہ ہو رہے ہیں۔ عام شہریوں نے تو بجلی کی بچت کرنے کے لیے اندھیرے کر لیے ہیں لیکن جن کے گھروں میں تھری فیز میٹر لگے ہوئے ہیں ان کے لیے بجلی کے ریٹ 200 یونٹ سے کم بجلی خرچ کرنے پر بھی تین ہزار روپے کا بل ادا کرنا پڑتا ہے۔ اب اس بل میں مزید اضافہ ہوگا۔ گردشی قرضوں کا حجم ختم کرنے کا واحد نسخہ یہ ہے کہ سبسڈی ختم کی جائے اور صارفین کو اصل قیمت (فلیٹ ریٹ) پر بجلی فراہم کی جائے۔ حکومت چاہے تو شمسی تونائی سے سستی ترین بجلی بغیر سرمایہ کاری کے حاصل کر سکتی ہے۔ اس کے لیے صرف سولر انرجی انڈسٹری کو فروغ دینے پر توجہ دینی ہوگی اور عام شہریوں کو یہ سہولت دینا ہوگی کہ وہ ان کی ضرورت سے زیادہ بجلی خرید لے گی۔ اس اقدام کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ گھر گھر سولر پینلز لگنا شروع ہو جائیں گے اور رہائشی علاقے ایک طرح کے پاور ہائوس میں تبدیل ہو جائی گے۔ جب جرمنی جیسا ترقی یافتہ ملک تمام مکانوں کو توانائی کے معاملے میں خود کفیل بنانے کے لیے کام کر سکتا ہے تو پاکستان کو سولر پینلز سستے کرنے سے کون سی قوتوں نے روک رکھا ہے؟ مہنگی چینی پاکستانیوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں ہے البتہ شور شرابے میں سیاسی شوگر مل مالکان اور تاجر ہی اربوں روپے کا فائدہ سمیٹتے ہیں۔ چینی کا زیادہ استعمال تو ویسے بھی صحت کے لیے اچھا نہیں ہے۔ شکر کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومتی مداخلت سے معاملات مزید خراب ہی ہوتے ہیں کیونکہ یہ تو دیکھ ہی لیا گیا ہے کہ مارکیٹ میں حکومت کی مقرر کردہ قیمت کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی لیکن اس سے میڈیا میں خبریں ضرور بنتی ہیں اور لوگوں میں اضطراب پیدا ہوتا ہے۔ مارکیٹ میں چاول، دال، مرغی، مچھلی، سبزیاں اور دوسری بہت سی اشیا کی قیمتوں میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے لیکن اس پر حکومت کی کوئی مداخلت نہ ہونے کی وجہ سے کہیں کوئی شور نہیں مچتا بلکہ مارکیٹ میں سپلائی اور ڈیمانڈ کا اصول قیمتیں طے کرتا ہے۔ چیز سستی ہوتی ہے تو لوگ زیادہ خریدتے ہیں لیکن جب کسی چیز کی قیمت خواتین کی سوچ سے زیادہ بڑھ جاتی ہے تو وہ اس کے استعمال میں کمی یا استعمال بالکل ترک کر دیتی ہیں۔ حکومتوں میں بیٹھے ہوئے وزرا کو صرف اعداد و شمار نظر آتے ہیں لیکن انہیں ملک کی خواتین نظر نہیں آتیں جو حقیقی معنوں میں رٹیل مارکیٹ میں ڈیمانڈ پیدا کرتی ہیں۔ دوسری جانب خواتین کو بھی اپنی اصل قوت کا احساس نہیں ہے، ان کا ایک بائیکاٹ یا کسی چیز کی طلب میں کمی قیمتوں کو حد سے زیادہ بڑھنے سے روک سکتی ہے۔ خواتین اگر چاہیں تو سوشل میڈیا کے دور میں مہنگائی کے بے قابو جن اور گھر کے بگڑتے ہوئے بجٹ کو قابو میں کرنے کے لیے منظم کوششیں کر سکتی ہیں۔ وہ چاہیں تو اپنے شوہروں کو رشوت اور بدعنوانی کی دلدل میں دھنسنے سے روک سکتی ہیں یا انہیں اس دلدل سے نکال سکتی ہیں۔ میڈیا پر تو اربوں اور کھربوں روپے کی کرپشن کے قصے ہیں، یہ رقمیں عام شہریوں کے تصور اور سوچ سے بھی باہر ہیں۔ ظاہر ہے جو لوگ چند ہزار روپے میں اپنے مہینے کا خرچہ چلانے کے بارے میں سوچتے ہیں ان کا اربوں روپے کی بدعنوانی کرنے والوں سے کیا واسطہ … جو سرکاری ملازمین ریٹائر ہو چکے ہیں وہ اپنی پینشن میں انکریمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے شکوہ کر رہے ہیں جبکہ نچلے گریڈ کے بوڑھے ملازمین اب بھی لائنوں میں لگ کر پینشن وصول کرنے کے لیے دھکے کھا رہے ہیں۔ ایک طرف اربوں اور کھربوں روپے کی بدعنوانیوں کے قصے ہیں اور دوسری جانب بوڑھے پینشنرز کی خواری ہے۔ ایسے سیکریٹری ہونے کا بھی کیا فائدہ کہ آپ بوڑھے سرکاری ملازمین کو بھی کوئی سہولت فراہم نہیں کر سکے۔ پاکستان ریلوے جیسے ادارے کے لیے کہا جا رہا ہے کہ پینشن کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ حکومت سرکاری ملازمین کی پینشن ختم کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ حکومت بالکل ایسا کر سکتی ہے لیکن یہ کام نئے سرکاری ملازمین سے کیا جا سکتا ہے کہ انہیں ساری رقم تنخواہ میں ادا کر دی جائے لیکن جو لوگ اپنی پوری سروس میں تنخواہ سے کٹوتیاں کرواتے رہے ہیں ان کی پینشن اچانک بند کرنے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح کسی بے ضابطگی یا بلا معاوضہ طویل چھٹی کی بنیاد پر کسی کی پینشن یا دوسرے مالی فوائد ضبط کی جا سکتے ہیں جن کے لیے برسوں تنخواہ سے کٹوتیاں کی جا چکی ہیں۔ لیکن پاکستان میں ذاتی مخاصمت اور تعصب کی بنیاد پر ایسے عدالتی فیصلے دلوائے جاتے رہے ہیں جن سے ادا شدہ رقم بھی بحق سرکار ضبط کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ جو پیسہ کسی کی تنخواہ سے کاٹ لیا گیا ہے اسے حکومت کیسے روک سکتی ہے؟ یہی سوال اس وقت ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے گروپ انشورنس فنڈ سے متعلق بھی موجود ہے۔ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی تنخواہ سے گروپ انشورنس کی مد میں لاکھوں روپے کی قسطیں ادا کی ہیں جس سے مالی فائدہ اٹھانے کا حق ریٹائرمنٹ کے بعد بھی رہتا ہے لیکن اسے معاملے کو ٹلا کر انشورنس کمپنی کے مفادات کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔ اسی قسم کا ایک واقعہ ایک نجی ادارے میں بھی ہوا تھا جس میں ملازمین نے ادارے کی انتظامیہ سے کہا تھا کہ ان کے پراویڈنٹ فنڈ کی رقم جس اکائونٹ میں جمع ہوتی ہے اس رقم پر ملنے والے بینک منافع پر ملازمین کا حق ہے جو انہیں نہیں دیا جا رہا ہے۔ جب یہ کیس عدالت میں پہنچا تو عدالت نے ملازمین کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ اسی طرح کا معاملہ سرکاری ملازمین کی پینشن اور دوسرے مالی مفادات کے تحفظ کا بھی ہے جس پر بڑے افسران کی ذاتی ناراضگی یا مخالفت کی وجہ سے ضرب پڑ سکتی ہے۔ اسی فیصلے کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اصولی طور پر سپریم کورٹ کا کوئی جج بھی کسی غیر حاضر سرکاری افسر کی وہ رقم نہیں روک سکتا جو سروس کے عرصے کے دوران اس سرکاری ملازم کی تنخواہ سے کٹتی رہی ہے اور اس ادا شدہ رقم پر حکومت اپنا حصہ ڈالتی رہی ہے لیکن سرکاری ملازمین کی آپسی سیاستیں، ذاتی مخاصمت اور لسانی و صوبائی تعصبات ایسے معاملات پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ ایک طرف عدالتوں کے ایسے فیصلے سامنے آتے ہیں تو دوسری طرف سنگین بدعنوانیوں میں ملوث اعلیٰ سرکاری افسران نیب سے پلی بارگین کرکے اپنی نوکریوں پر بحال ہو جاتے ہیں۔ بات تو صحیح ہے کہ پاکستان میں ساری قانونی اور عدالتی سختیاں صرف عام شہریوں کے لیے ہیں ورنہ اربوں روپے کی بدعنوانیوں کرنے والے تو خبروں میں رہنے کے باوجود اب بھی عیش و آرام کی زندگی گزار رہے ہیں۔