امریکہ میں تبدیلی
گزشتہ دنوں امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن نے 46 ویں امریکی صدر بننے کا اعزاز حاصل کیا ، وہ ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن ہیں اور 2009 سے لے کر 2017 تک باراک اوباما کے ساتھ نائب صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ امریکی تاریخ میں پچھلی اڑھائی دہائیوں سے جو بھی صدارت کے عہدے پر فائز ہوا وہ دو دو باری لگاتار منتخب ہوا اور آٹھ آٹھ سال تک امریکہ کی حکمرانی کی۔ بل کلنٹن 1993 سے 2001 , جارج ڈبلیو بْش 2001 سے 2009 اور باراک اوباما 2009 سے 2017 تک امریکی صدر رہے جبکہ پچھلے امریکی صدر یعنی ڈونلڈ ٹرمپ صرف ایک باری ( چار سال تک ) ہی حکومت کر سکے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی تاریخ کے امیر ترین صدر ہونے کا بھی اعزازحاصل تھا کیونکہ وہ ایک کاروباری آدمی تھے جبکہ انکے مقابلے میں دوسرے امرکی صدور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن بھی ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ شاید ڈونلڈ ٹرمپ کی ناکامی کی وجہ بھی انکی ناکام معاشی پالیسیاں ہی بنی ہونگی کیونکہ جب بھی کسی مملکت کا سربراہ خود بزنس مین ہو وہ حکومتی امور نمٹاتے وقت اپنے ذاتی
مفادات کو بھی مدنظر رکھتا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کی داخلہ اور خارجہ پالیسیاں بھی بْری طرح ناکام رہیں بالخصوص پچھلے سال عالمی وبا کورونا وائرس نے دنیا بھر میں جتنی تباہی مچائی اس سے بھی زیادہ تباہی صرف امریکہ میں ہوئی۔ اموات کے لحاظ سے بھی امریکہ دنیا بھر میں سرفہرست ہے جبکہ معاشی نقصان میں بھی امریکہ سب سے آگے ہے۔ امریکہ میں اس وبا کے دوران اب تک پانچ کروڑ سے زائد لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں جبکہ معیشت کو تقریباً 18 کھرب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسیوں میں ناکامی کی سب سے بڑی وجہ اسرائیلی نواز رویہ تھا۔ اسرائیلی لابی نے ڈونلڈ ٹرمپ کو اس قدر یرغمال بنائے رکھا کہ بالآخر کئی عرب ممالک کو زبردستی اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اسکے ساتھ تعلقات بحال کروا کر مسلمان ممالک کو اسرائیل کے تابع کرنے کی سازش رچائی جس میں اسرائیل تو یقیناً خوش ہوا مگر مسلمان ممالک جو کہ پہلے ہی امریکہ کے خلاف تھے مزید دْور ہوتے چلے گئے ، ان ممالک میں پاکستان ، ترکی اور ایران سرفہرست ہیں۔موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کے لیے خارجہ اور داخلہ پالیسیوں دونوں میں تبدیلیاں کرنا ناگزیر ہے، کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ کے اندر نسل پرستی اور مذہب پرستی پروان چڑھیں۔ جو بائیڈن کو مسلمانوں سمیت دوسری اقلیتوں کو امریکہ میں تحفظ کی یقین دہانی کروانی پڑے گی جبکہ خارجی محاذ پر امریکہ کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج چین کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار کرنا ہیں ، دنیا میں پھیلے امریکی مفادات کو دوسرے ممالک کے لیے خطرہ بنائے بغیر تحفظ کرنا ہو گا۔ بھارت اور پاکستان کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھنا نو منتخب صدر جو بائیڈن کے لیے ایک اور بڑا چیلنج ہے۔ کشمیر اور فلسطین کے مسائل کے حل کی جانب ٹھوس اقدامات کرنے ہونگے کیونکہ ان مسائل کے حل کے بغیر مسلمان ممالک کے دل میں اپنے لیے نرم گوشہ بنانے کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔امریکہ کی بدقسمتی ہے کہ اسکی اسٹیبلشمنٹ اور پالیسی سازوں میں ایک بڑی تعداد بھارتی اور اسرائیلی شہریوں کی ہے جو کہ مسلمانوں ، مسلم ممالک اور دوسرے چھوٹے اور کمزور ممالک کو زیر کرنے کی کوششوں میں مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے حتیٰ کہ فرانس میں مسلمانوں کے خلاف قانون سازی بھی کی گئی جو کہ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی میں منفی کردار بھی ادا کر سکتی ہے۔ ترقی یافتہ اور طاقتور ملکوں کی دیکھا دیکھی میں بھارت میں بھی مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑکائے گئے مگر ان سارے معاملات میں امریکہ کا کردار نہایت منفی رہا ہے ، اس منفی کردار کی سب سے بڑی وجہ بھی امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہی تھے کیونکہ انہوں نے اپنی خارجہ پالیسی کو ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا۔مسلم ممالک نے امریکہ کے ہر انتخاب پر گہری اور پْر امید نگاہیں لگائے رکھیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ساری امیدیں دم توڑ جاتی تھیں۔ حتیٰ کی باراک اوباما کو لوگ مسلمان گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے امید کی کرن قرار دیتے تھے مگر انکے آٹھ سال بھی گزر گئے اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کو ختم نہ کیا جا سکا۔ حالانکہ انہوں نے پہلی تقریر میں ہی افغانستان اور عراق سے فوجیں واپس بلانے کا اعلان کیا مگر اس اعلان پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ گزشتہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت کا نقصان خود امریکہ کا بہت زیادہ ہوا ہے ، امریکہ ان چار سالوں میں نہ صرف معاشی طور پر پیچھے چلا گیا بلکہ دفاعی طور پر بھی امریکہ بہت کمزور ہوا ، آج امریکہ کسی بھی ملک کے خلاف فوج کشی کی پوزیشن میں نہیں ہے وگرنہ تباہ حال معیشت مزید تباہی سے دوچار ہو سکتی ہے ، لہٰذا نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کو چین سمیت دوسرے طاقتور ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنے پڑیں گے جبکہ چھوٹے ممالک اور بالخصوص مسلم ممالک کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ، تاکہ معیشت کو دفاع کی بجائے اپنے عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کیا جا سکے۔