مودی سرکار کے جنونیت ترک کرنے تک ایسے واقعات اچنبھا نہیں

بھارتی یوم جمہوریت سے دو دن پہلے دہلی میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگ گئے۔ رپورٹس کے مطابق خان مارکیٹ کے میٹرو سٹیشن پر ایک گروپ پیدل اور چھوٹی بائیکس پر آیا اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا کر چلا گیا۔ اس گروپ میں لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ اسکے بعد پولیس میں کھلبلی مچ گئی جو لکیر پیٹنے موقع پر پہنچی تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ بعدازاں پولیس نے 6 افراد کو گرفتار کرلیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار افراد میں تین لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ پولیس نے انکے گھر والوں سے بھی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
بھارت میں 26 جنوری کو یوم جمہوریہ منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر کشمیری ہمیشہ سے یوم سیاہ مناتے چلے آئے ہیں۔ بھارت خود کو سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر سٹیٹ باور کراتا چلا آرہا ہے۔ بھارت میں مروجہ جمہوریت اسکے ماتھے کا کلنک بن گئی اور سیکولرازم دفن ہو چکا ہے۔ شدت پسندی ہر دور میں کسی نہ کسی صورت میں جاری رہی اور اب تو مودی نے بھارت کو مکمل طور پر ہندو شدت پسند ریاست بنا دیا ہے۔ جہاں اقلیتیں بدترین حالات سے دوچار ہیں اور اقلیتوں کے ساتھ سوقیانہ سلوک حکومت کی سرپرستی میں ہوتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تو بربریت انتہائوں کو پہنچ چکی ہے۔ 5؍ اگست 2019ء کے بہیمانہ اقدامات کے باعث انسانی المیہ بدترین شکل اختیار کر چکا ہے۔ ڈیڑھ سال سے کشمیریوں کو سخت پابندیوں کا سامنا ہے۔ تاریخ میں اس قدر طویل عرصے تک کبھی کرفیو نافذ نہیں کیا گیا۔ انسانی حقوق کی پامالی پہلے بھی کم نہیں تھی‘ لیکن بھارت تو اسکی حدیں عبور کر چکا ہے۔ حسب سابق آج بھارت کے یوم جمہوریہ پر آزاد اور مقبوضہ کشمیر میں یوم سیاہ منایا جائیگا۔ اس موقع پر مقبوضہ وادی میں مکمل ہڑتال ہوگی۔ بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کیلئے کشمیری دنیا میں جہاں کہیں بھی ہیں‘ ریلیاں نکالیں گے‘ کانفرنسیں کرینگے اور پاکستانی کشمیریوں کے شانہ بشانہ ہونگے۔
بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ جس طرح کا سلوک روا رکھا جاتا ہے‘ اس کا اظہار عموماً ہوتا رہتا ہے تاہم بھارت کے یوم جمہوریہ‘ یوم آزادی اور دیگر خصوصی ایام پر زیرعتاب لوگ زیادہ شدت کے ساتھ حکومت کے متعصبانہ رویوں کو دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان کے بھارت میں پرچم لہرانے‘ پاکستان کے حق میں نعرے لگانے کا مقصد دنیا کے سامنے اقلیتوں کے ساتھ سلوک کا ایک طرح سے موازنہ بھی ہوتا ہے۔ بھارت میں کئی بار پاکستان کا پرچم لہرانے اور زندہ باد کے نعرے لگانے کے واقعات ہو چکے ہیں۔ دو سال قبل شاہجہاں کی برسی کے موقع پر نوجوانوں کے ایک گروپ نے تاج محل میں داخل ہو کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے تھے۔ ایسا کرنے والوں کے ساتھ بھارتی حکومت سفاکانہ سلوک کر تی ہے۔ اگرلوگ ظلم اور جبر سے ایسے احتجاج سے باز آسکتے تو بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں فوج کی تعداد نو لاکھ اور اسے مہلک اسلحہ سے مسلح کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
بھارت میں شدت پسند ہندوئوں کے سوا نچلی ذات کے ہندوئوں سمیت کوئی بھی اقلیت محفوظ نہیں ہے۔ مسلمان خصوصی طور پر ’’مودی ازم‘‘ کے نشانے پر ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جس طرح کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور سکھوں کے ساتھ جو کچھ کیا گیایہ ہالوکاسٹ ہی کی ایک قسم ہے۔ مودی سرکار کے ایسے طرز انتظام اور اقلیتوں سے انتقام کو اسی لئے نازی ازم سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ سکھ گولڈن ٹیمپل پر یلغار کا غم کبھی نہیں بھلا سکتے۔ اب پھر سکھوں کو متنازعہ زرعی قوانین کے تحت زیرعتاب لایا جا رہا ہے جس پر وہ بپھرے ہوئے ہیں مگر مودی حکومت قوانین پر نظرثانی کرنے پر تیار نہیں ہے۔ آج بھارت کے یوم جمہوریہ پر سکھ مظاہرین دہلی کی طرف مارچ کرررہے ہیں۔
شدت پسند ہندوئوں کی طرف سے مسیحیوں‘ مسلمانوں اور سکھوں کی عبادت گاہوں کو گرانے اور جلانے کا سلسلہ عرصہ سے جاری ہے۔ بابری مسجد کو گرا کر مندر تعمیر کیا جارہا ہے۔ اس پر سب سے بڑی اقلیت کا مشتعل ہونا فطری امر ہے۔ آل انڈیا یونائیٹڈ فرنٹ کے سربراہ بدرالدین کی طرف سے انکشاف کیا گیا ہے کہ آر ایس ایس کے غنڈوں کی نظریں مزید تین ہزار سے زائد مساجد پر ہیں۔ اسکے بعد مسلمانوں کا مزید غضب ناک ہونا نوشتہ دیوار ہے۔
اقلیتوں کے ساتھ سلوک کی بات کی جاتی ہے تو کرونا کے شروع میں مسلمانوں کو اسکے پھیلائو کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ مسلمانوں پر کرونا کے علاج کے دروازے بند اور کئی کو کرونا میں مبتلا ہونے کے شبہ میں تشدد کرکے مار دیا گیا۔ گزشتہ سال دہلی میں مسلمانوں کے گھروں اور انکی املاک کو جلا دیا گیا اور یہ سب کچھ مودی سرکار کے ایماء پر شہر کے باہر سے لوگوں کو لا کر کرایا گیا۔ مودی فطرتاً سفاک شخص ہے۔ گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کو اسی کے حکم پر اسکی وزارت اعلیٰ کے دوران جلا کر شہید کردیا گیا تھا۔
ظالم حکومت کیخلاف آوازیں بھارت کے اندر سے بھی اٹھ رہی ہیں۔ عوام حکومت سے مطمئن اور شاد کام ہوں تو خصوصی ایام کے مواقع پر اپنے مثبت جذبات کا اظہار کرتے ہیں‘ جشن مناتے ہیں جبکہ حکومت کیخلاف نکل کر کھڑے ہو جانا اور نعرے بازی اپنے خلاف ریاست کے معاندانہ رویوں کا اظہار ہے۔ عالمی برادری کو ریاستی سطح پر اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے گئے بغض و عناد پر مبنی سلوک کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ بھارت راہ راست پر نہیں آتا تو پابندیوں کے آپشن سے بھی گریز نہ کیا جائے۔