منگل ‘ 12؍ جمادی الثانی 1442ھ‘ 26؍ جنوری 2021ء

ان ہائوس تبدیلی اور اپوزیشن کے پارلیمانی رہنمائوں کا اجلاس
ان ہائوس ہو یا آئوٹ ہائوس‘ پارلیمنٹ کے اندر ہو یا پارلیمنٹ کے باہر‘ حکومت کی تبدیلی کا سراب فی الحال نقش برآب ہی ثابت ہوگا۔ ابھی تک تو اپوزیشن میں اس حوالے سے اتفاق نہیں پایا جاتا کہ حکومت کا تختہ الٹنا ہے یا پارلیمنٹ میں اس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانی ہے۔ کوئی عدم اعتماد کی ہانک رہا ہے‘ کوئی دھڑن تختہ کی بانگ لگا رہا ہے۔ اپوزیشن کی یہ متضاد پالیسیاں الٹا حکومت کے حق میں رحمت ثابت ہو رہی ہیں۔ اب تو ہر بڑا چھوٹا حکومتی کارندہ ’’کہاں کی ربائی کہاں کی غزل‘‘ والی حالت دیکھ کر اپوزیشن پر ’’بھان متی نے کنبہ جوڑا۔ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا‘‘ والی پھبتی کستے ہوئے قہقہہ لگا رہا ہے۔ اب دیکھتے ہیں اپوزیشن کے پارلیمانی رہنمائوں کے اس موجودہ اجلاس میں کوئی متفقہ فارمولا سامنے آتا ہے یا نہیں۔ بلاول زرداری یعنی پیپلزپارٹی والے پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کو ہٹانے کے خواہشمند ہیں۔ فضل الرحمن اور مریم نواز تخت یا تختہ کی پالیسی لیکر کھڑے ہیں۔ یہ بات دونوں جانتے ہیں کہ حکومت جانے والی نہیں۔ جب تک ہما حکمرانوں کے سر پر بیٹھا ہے۔ اپوزیشن والے جو چاہے کر لیں‘ کچھ نہیں ہوسکتا۔ ہاں اگر ’’ہما‘‘ خود اڑ کر کسی اپوزیشن جماعت کے قائد کے سر پر سایہ فگن ہو جائے تو پھر اس کیلئے تاج و تخت حاصل کرنے کی راہ خود بخود ہموار ہو جائے گی۔ ویسے ہم ’’ہما‘‘ کو ظل الٰہی بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ ان کا سایہ بھی سروں پر سلامت رہنے والے الفاظ آج بھی بامعنی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
ٹماٹر کی درآمد کے خلاف سندھ میں کاشتکاروں کا احتجاج
معلوم نہیں یہ الٹے بانس بریلی کو والی پالیسی ہمارے حکمرانوں کو کیوں پسند ہے۔ اس وقت ملک بھر میں ٹماٹر کی فصل تیار ہوکر بازار میں آنے کو بے تاب ہے‘ مگر ہمارے حکمران بیرون ملک سے ٹماٹر مہنگے داموں خریدرہے ہیں۔ شاید اس طرح حکومتی نمائندے اپنا کمیشن کھرا کرنا چاہتے ہیں۔ سندھ میں ٹماٹر کی پیداوار زیادہ ہے۔ وہاں کے کسان اور کاشتکار ٹماٹر کی گرتی ہوئی قیمت سے پریشان ہیں۔ اس وقت مقامی کاشتکاروں سے ٹماٹر 11 روپے فی کلو کے حساب سے خریدا جا رہا ہے جبکہ مارکیٹ میں اس کا ریٹ60 سے 100 روپے تک ہے۔ اگر باہر سے بھی ٹماٹر منگوانے کی پالیسی جاری رہی تو ٹماٹر کے کاشتکار کنگال ہو جائیں گے۔ انہیں تو پیداواری اخراجات بھی پورے کرنا مشکل ہونگے۔ حالات یہی رہے تو وہ بے چارے اپنے ٹماٹر 5 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اب اس کا علاج انہوں نے یہ نکال لیا ہے کہ اپنی فصلوں پر ہل چلا کر انہیں ہی تباہ کرنا شروع کر دیا ہے کیونکہ وہ ٹماٹر کی قیمتوں میں اضافہ کرنے یا انہیں اپنی من پسند قیمتوں پرفروخت کرنے کی طاقت تو نہیں رکھتے۔ مگر انہیں فصلوں پر ٹریکٹر چلا کر انہیں تباہ کرنے کا حق تو ہے۔ سو وہ یہ حق استعمال کر رہے ہیں۔ اب حکومت ان نصیبوں جلے کاشتکاروں کی طرف بھی نظر کرم کرے ان کے زخموں پر مرہم رکھے تاکہ یہ مزید مشکلات کا شکار نہ ہوں۔
حکومت کو جانا ہو گا۔ سراج الحق کا سٹیل ملز کے مظاہرین سے خطاب
اول تو یہ بات سراج الحق سمیت تمام لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ دھرنوں یا مظاہروں سے حکومت جانے والی تو کجا لڑکھڑانے والی بھی نہیں۔ اس کے تین سال گزر گئے باقی دو بھی پلک جھپکتے بیت جائیں گے جو لوگ اس حوالے سے الٹے سیدھے خواب دیکھ رہے ہیں ان میں سراج الحق بھی شامل ہیں۔ مگر یہ سب خواب تبخیر معدہ یا بے خوابی کے سبب بھی آ سکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ یہ خواب رویائے صادقہ ہوں۔ ایسے خواب بعض اوقات دماغ پر گیس زیادہ چڑھنے کی وجہ سے بھی آتے ہیں۔ اب حکومت کے جانے سے جماعت اسلامی کو کیا فرق پڑے گا۔ پہلے کب ان کو عوامی ووٹوں سے راج پاٹ نصیب ہوا ہے کہ اب وہ راج سنگھاسن تک پہنچ پائیں گے۔ جماعت اسلامی آج کل سولو فلائٹ کا مزہ لے رہے ہیں۔ تنہا پرواز کا شوق ان کی قومی و صوبائی اسمبلی میں نشستوں میں کمی کی شکل میں سب کے سامنے ہے۔ وہ پی ڈی ایم کا ساتھ دینے کو بھی تیار نہیں۔ سراج الحق پی ڈی ایم کے اتحاد کو غیر فطری قرار دیتے ہیں۔ یادش بخیر وہ اسی اتحاد کی کم از کم دو جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کے ساتھ اتحادی بھی رہ چکے ہیں۔ دوسری طرف حکمران پی ٹی آئی کے بھی اتحادی رہے ہیں۔ اب یہ فیصلہ انہیں پھر کرنا پڑے گا کہ ان میں کون بڑی برائی ہے اور کون چھوٹی برائی۔ اس کے بعد جس کے ساتھ یہ جا کر ملیں گے وہ اتحاد خود بخود فطری بن جائے گا۔ دیکھتے ہیں حکومت یا پی ڈی ایم میں سے کون جماعت والوں کو ساتھ ملاکر یہ فطری اتحاد قائم کرتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
برتن ٹوٹنے پر مالکان کا ملازمہ بچی پر وحشیانہ تشدد
گھریلو ملازموں پر تشدد کے خلاف اتنا لکھا جا چکا ہے کہ اگر ان سب کو جمع کیا جائے تو کئی جلدوں پر مبنی کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ مگر افسوس نہ تو لوگوں کے رویے میں تبدیلی آئی نہ ان کم سن یا نوجوان گھریلو ملازموں کے دن بدلے۔ پہلے بھی یہ ظلم و تشدد کا شکار ہوتے تھے اب بھی ہو رہے ہیں۔ یہ سلسلہ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جب تک یورپ امریکہ اور ممالک کی طرح گھریلو ملازموں کو بھی سرکای سرپرستی حاصل نہیں ہوتی۔ ان کے لیے اوقات کار مقرر نہیں ہوتے۔ ان کو قانونی طور پر رجسٹرڈ نہیں کیا جاتا اور ان کی تنخواہوں اور چھٹیوں کا حساب طے نہیں ہوتا۔ کوئی نجی سطح پر یہ کام نہیں کر سکتا۔ دنیا بھر میں گھریلو ملازمین کو سرکاری ملازموں کی طرح بے شمار فوائد اور سہولتیں حاصل ہیں۔ مگر اس کے برعکس ہمارے ہاں ان کے ساتھ غلاموں والا سلوک کیا جاتا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر وحشیانہ جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جب ان مظالم کی کوئی ویڈیو وائرل ہوتی ہے یا خبر باہر آتی ہے تو چند روز عدالتوں میں این جی اوز میں اخبارت اور ٹی وی میں اس حوالے سے بھرپور بیان بازی ہوتی ہے پھر وہی ’’رقص بسمل‘‘ جاری ہوتا ہے۔ اب حکومت ان تمام ملازموں کو رجسٹر کرے۔ ان کے حقوق و فرائض مقرر کرے انہیں سرکاری تحفظ دے۔ ان پر تشدد اور انہیں زیادتی کا نشانہ بنانے والوں کو کڑی سزا دے تو معاملہ درست ہو سکتا ہے ورنہ ہر جگہ کم سن پھولوں جیسے بچے اور بچیاں فیصل آباد کی اس ملازم بچی کی طرح زخموں سے چور کراہتے رہیں گے۔
٭٭٭٭٭