کرونا ویکسین کی فراہمی؟
جن لوگوں کا راہوار زندگی سرپٹ دوڑتا ہوا زیست کی حتمی منازل کی طرف بڑھ رہا ہے انہیں حیرانی ہوتی ہے کہ آخری عمر میں ایک وقت ایسا بھی آنا تھا، جب ان کی آزادی عملاً سلب ہوجائے گی۔ زندگی ایک بوجھ لگنے لگے گی اور غالب کا یہ شعر ہر وقت ورد زبان ہوگا۔
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
موت برحق مگر کوئی شخص بھی ایسی رخصتی نہیں چاہتا جسکے قریب آنے سے اسکے عزیزواقارب بھی بدکتے ہوں… دنیا میں کئی بیماریاں آئیں اور چلی گئیں پر کچھ اب کے سرگرانی اور ہے! اگر مکمل احتیاط نہ برتی جائے تہ یہ مرض جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ ماسک پہننا، سماجی فاصلے قائم رکھنا، ہاتھوں کو دن میں اتنی بار دھونا کہ ان پر شیشے کا گمان ہو وغیرہ۔ 22 کروڑ کے اس ملک میں جہاں آدھی آبادی خطہ غربت سے نیچے ہو یا غریب ہو، لوگ بیروزگار ہوں، بھوک بھنگڑا ڈال رہی ہو، اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہوں، وہاں اس قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوجاتا ہے۔ حکومت حتیٰ الواسعی جو کچھ کرسکتی ہے کررہی ہے، لیکن محدود ذرائع کے وجہ سے وہ کچھ نہیں کر پارہی، جیسا ترقی پذیر ممالک میں ہورہا ہے۔ حکمت عملی کا بھی کچھ کچھ فقدان نظر آتا ہے۔
حالات کے اس گھپ اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن پھوٹی ہے جس تیزی ، عرق ریزی اور زرکثیر خرچ کرکے سائنس دانوں نے ایک سال کے قلیل عرصے میں اس مرض کا توڑ نکالا ہے وہ حیران کن بھی ہے اور معجزاتی بھی! کئی برس گزرنے کے باوجود ابھی تک ایڈز اور کینسر کی ویکسین نہیں نکلیں لیکن اس کا علاج نکل آیا ہے۔ اسکی ایک وجہ اس کا پھیلائو ہے جس تندی، تیزی اور سرعت کے ساتھ یہ مرض پھیلتا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ چین کے دور دراز شہر ووہان سے جو وباء پھوٹی وہ آواز کی رفتار سے چار وانگ عالم پھیل گئی ہے!
دنیا کے دیگر ممالک کے برعکس پاکستان میں اس کا پھیلائو نسبتاً کم رہا ہے۔ گو دوسری لہر نے کئی اندیشوں کو جنم دیا ہے لیکن پھر بھی مرض قابو سے باہر نہیں ہوا۔ حکومت کی کوششوں کے برعکس اکثریت اس کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔ اسکی بے شمار وجوہ ہیں۔ توکل، تعلیم کا فقدان، معاشی ناہمواریاں، معاشرتی ناصبوریاں۔ اکثریت سمجھتی ہے کہ جب موت کا ایک دن معین ہے تو پھر اس قدر احتیاط کی کیا ضرورت ہے؟ یہ موقع قضاوقدر کے مسائل پر بحث کرنے کا نہیں ہے۔ محتاط رہنے کی ہدایت تو ہر مذہب کرتا ہے۔
بیماری کے حالیہ پھیلائو کی ایک وجہ حکومت اور مخالف پارٹیوں کا ٹکرائو بھی ہے۔ منع کرنے کے باوجود حزب اختلاف ملک کے کونے کونے میں بڑے بڑے اجتماع کررہا ہے۔ ظاہر ہے جب ہزاروں لوگ ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملا کر بیٹھیں گے ، ماسک نہیں پہنیں گے ، ایک دوسرے کی سانسیں محسوس کرسکیں گے تو بیماری نے پھیلنا ہی ہے… حزب اختلاف کے موقف میں بھی وزن ہے۔ وہ کہتے ہیں حکومت کی تشویش کے پیچھے حُب علی نہیں بلکہ بغض ہے۔ جب گلگت بلتستان میں الیکشن جیتنے کیلئے جلسے جلوس کرنے ہوتے ہیں تو انہیں بیماری یاد نہیں رہتی۔ ٹائیگر فورس کا اجتماع ہو تو تمام حفاظتی تدابیر کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔یہ تمام باتیں اپنی جگہ درست سہی، لیکن اصل مسئلہ کچھ اور ہے اس وقت دنیا میں پانچ ویکسین دریافت ہوچکی ہیں۔ امریکہ میں فائزر کمپنی اور ماڈرنا کمپنی کی ویکسین، برطانیہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے تعاون سے بننے والی آسٹرازینکا ، روس کی سیوننک V چین کی دوا بھی قریباً مکمل ہوچکی ہے۔ پاکستان میں 20 ہزار لوگوں نے ٹرائل میں حصہ لیا ہے اور اسکے نتائج حوصلہ افزاء ہیں۔
دنیا کی آبادی سات ارب سے تجاوز ہے۔ ان کمپنیوں کی اتنی استعداد نہیں ہے کہ مستقبل قریب میں یہ ممالک کی ڈیمانڈ پوری کرسکیں۔ چونکہ حکومتوں نے مفت دینے کا اعلان کیا ہے اس لئے غریب ممالک کی قوت خرید بھی محل نظر ہے۔ اس سے بھی بڑا مسئلہ اسکی ترسیل ہے۔ فائزر کی ایک سال تک پیداوار پیشگی بک ہوچکی ہے۔ اسکا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ کینیڈا نے اپنی ضرورت سے پانچ گنا زیادہ خرید لی ہے! چونکہ یہ 70 ڈگری پر سٹور ہوتی ہے، اس لئے پاکستان میں اس کا آنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اس طرح ماڈرنا امریکہ اور یورپ کیلئے وقف ہوچکی ہے۔ اگر وہاں کی آبادی دو سال میں ویکسی نیٹ ہوجائے تو بڑی بات ہوگی۔ آسٹرازینکا بھی بمشکل برطانیہ کی ضرورت پوری کرسکے گی۔ روس نے پاکستان کو پیشکش تو ضرور کی ہے لیکن اس کا موثر ہونا محل نظر ہے۔ روس میں جس تعداد میں روزانہ اموت ہورہی ہیں اس سے اسکی افادیت پر کئی سوال اٹھ رہے ہیں… سادے الفاظ میں روس کو کہا جاسکتا ہے : ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو!‘‘
خبریں سنیں اور کوئی نہ آیا بروئے کار۔ لے دے کی چینی ویکسین رہ جاتی ہے۔ اسکے موثر ہونے کا پورا پتہ اس وقت چلے گا جب یہ مارکیٹ میں آئیگی۔ پاکستان میں جو ٹرائل ہوئے ہیں ان میں پوری ویکسین نہیں تھی۔ باالفاظ اگر 50 فیصد پانی تھا اور 50 فیصد ویکسین غیرموثر ویکسین کو PLACEBO کہتے ہیں۔ کیا اس سے ANTIBODIES بنی ہیں یا نہیں اس کا پتہ لگنے میں کچھ وقت لگے گا…وفاقی وزیر فواد چوھری نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان نے مارچ 2021ء تک 12 لاکھ ٹیکوں کا آرڈر دے دیا ہے۔ یہی لمحہ فکریہ ہے! یہ تو اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی نہیں بنتا۔ اس طرح تو کئی سال لگ جائینگے اور واقعہ یہ ہے کہ حکومت نے بروقت خرید کا پیشگی آرڈر نہیں دیا بعداز خرابی بسیار جو 150 ملین ڈالر مختص کئے گئے ہیں وہ بھی TOOLITTLE ` TOO` LATE کے زمرے میں آتا ہے۔ ہم اللہ توکل لوگ ہیں کافی باتیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ منشی پریم چند کے افسانے کا ایک کردار ہرکھو ہے۔ وہ غریب آدمی جب بیمار پڑتا ہے تو بستی کے لوگ اسکی تیمارداری کیلئے آتے ہیں۔ جو شخص بھی کوئی دوا تجویزکرتا ہے تو ہر کھو کہتا ہے ’’لے آنا‘‘ ظاہر ہے دوا نے تو کیا آنا تھا، وہ بے چارہ بالآخر ’’پران‘‘ چھوڑ جاتا ہے حکومت کو چاہئے کہ ہر کھو بننے کی بجائے ایک مسیح الملک کا کردار کرے۔ خزانے میں رکھے اس زرمبادلہ کا کیا فائدہ ہے جو عوام پر خرچ نہ ہو۔
ویکسین کی بروقت فراہمی حکومت کا ’’لسٹی ٹیسٹ‘‘ ہے۔ اگر کامیاب ہوجاتی ہے تو اپوزیشن کی تحریک اپنی موت آپ مر جائیگی۔ اسکے غبارے سے ہوا نکل جائیگی۔
ناکامی کی صورت میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ پراپیگنڈے کا ایک موثر ہتھیار انکے ہاتھ میں آجائیگا ، لوگوں کو گھروں سے باہر نکالنا بھی نسبتاً آسان ہوگا اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اختیار ۔ دامے درمے، قدمے سخنے باہر نکلیں۔ جہاں سے بھی ملے اور جتنی مقدار میں ملے دوا خرید لائیں۔ اسکی تقسیم اور ترسیل کا موثر انتظام کریں۔ یہ تاثر نہ پھیلے کہ خواص نے تو علاج کرا لیا ہے اور عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔