گمشدہ عہد وفا

اڑھائی سال بعد مسائل کی لسٹ پہلے سے زیادہ لمبی چوڑی دکھائی دیتی ہے۔ بحران اور مافیا ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اظہار یکجہتی کررہے ہیں۔ گردشی قرضوں نے مت مار دی ہے۔ نومبر 2020ء تک گردشی قرضوں کا حجم 2306 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ بجلی چوری‘ واجبات کی بروقت ادائیگی کا نہ ہونا اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوںکی ناقص کارکردگی سب پر عیاں ہے۔ نج کاری کا نام سنتے ہی ورکرز سڑکوں پر جمع ہو جاتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ان کا موٹو ’’نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے‘‘ ہے۔ یونین گردی نے سٹیل ملز اور پی آئی اے کو بے حال کیا۔ یہ بھی پولیس گردی سے کم نہیں۔ ریلوے کے نٹ بولٹ اسی نے ڈھیلے کر رکھے ہیں۔ ریلوے ورکشاپوں کے اکثر ملازم نمبر ٹانگ کر گیٹ مینوں کی مٹھی گرم کرکے باہر پھل کی ریڑیاں لگاتے اور رکشے چلاتے ہیں۔ ریلوے کی نوکری بادشاہت سے کم نہیں۔ ہر کام چور کرپٹ یونین کے پیچھے چھپا بیٹھا ہے۔ پاور سیکٹر دو عشروں سے گردشی قرضوں تلے دبا ہوا ہے۔ 2008ء میں ان قرضوں کا حجم ساڑھے چھ ہزار ارب روپے تھا جو زرداری دور میں ساڑھے تیرہ ہزار ارب روپے تک جا پہنچا تھا۔ جون 2018ء میں گردشی قرضہ 1148 ارب روپے ہو چکا تھا جبکہ نومبر 2018ء سے نومبر 2020ء کے دوران یہ قرضہ 23 کھرب سے بھی بڑھ گیا ہے۔ بجلی اور گیس بلوں کا رونا ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ غیرملکی ڈیلروں کا پاکستان کو ایل این جی کی فراہمی سے انکار سامنے آیا ہے۔ یکم فروری سے تمام صنعتی یونٹوں کو قدرتی گیس کی سپلائی بند کی جارہی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں قیمتیں غیرمتوقع طور پر بڑھ گئی ہیں۔ اسکے علاوہ بعض ملکوں نے گیس زیادہ خریدی اور ڈیمانڈ بڑھنے سے نرخ بھی بڑھے۔
گھریلو صارفین پہلے ہی گیس کی شدید قلت کا رونا رو رہے ہیں۔ اس وقت سب سے فعال شوگر مافیا ہے۔ پنجاب‘ خیبر پختونخوا اور سندھ میں شوگر ملوں کا جال پھیلا ہوا ہے اسکے باوجود پانچ لاکھ ٹن مزید چینی درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔ لوگ چینی 95 تا 100 روپے کلو خریدنے پر مجبور ہیں۔ مٹھائی اور بیکری کی قیمتوں میں اوسطاً سو روپے کلو اضافہ ہوا ہے۔ 13 ماہ پہلے دسمبر 2019ء میں آٹے کی قیمت 50 روپے کلو تھی جو اب 85 روپے کلو ہے۔ گندم اور چینی کی ذخیرہ اندوزی سونے اور ڈالر کے کاروبار سے زیادہ منافع بخش ہے۔ گندم اور چینی کی بڑھتی مقدار میں سمگلنگ عام بات ہے۔ شرح نمو منفی ہونے کے قریب ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کبھی معاشی سیاسی اور سماجی وژن کی بات نہیں کی۔ کرونا کے بعد تعلیمی اداروں کی بندش اور آن لائن کلاسوں نے نظام تعلیم کی چولیں ہلا دی ہیں۔ پبلک سروس کمیشن کی رپورٹیں دہائی دے رہی ہیں کہ سی ایس ایس جیسے امتحانات میں بیٹھنے والوں کا تعلیمی معیار پستی کی حدوں کو چھو رہا ہے۔ اب تونالائقوں میں کم نالائق کو مجبوراً ’’بابو‘‘ بنانا پڑ رہا ہے جیسے جھوٹوں میں کم جھوٹے کو دوست بنانا پڑتا ہے۔ زراعت کی حالت زار کوئی مزارعوں اور ہاریوں سے پوچھے۔ بڑے زمینداروں کا کام سیاست کرنا‘ پارٹیاں بدلنا‘ الیکشن لڑنا اور پیسے بنانا ہے۔ کرپشن کے خاتمے کیلئے کوئی ویکسین ایجاد نہیں ہوئی۔ کبھی تندوروں پر آٹے کے پیڑے کا وزن کیا جاتا تھا‘ رکشے ٹیکسی پر میٹر ہوا کرتے تھے‘ اب تو ہر طرف مادر پدر آزادی ہے۔ تھانے کچہری پٹوار خانے جوں کے توں کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ وہ مچھلیاں ہیں جو کرپشن کے دریا میں رہ کر زندہ رہتی ہیں۔
بیرون ملک بلیک منی کا ایک دھیلہ بھی واپس نہ آسکا۔ کون سا پاگل بیرون ملک سے نوکری لینے پاکستان آیا ہے۔ جتنا برین ڈرین پاکستان سے ہوا ہے اسکی مثال نہیں ملتی۔ قابل ترین ڈاکٹر امریکہ میں آباد ہیں۔ مڈل کلاس کا حال اس بچی کا سا ہے جو بر کی امید لگائے بڑھاپے کی سیڑھی پر بیٹھی ہے۔ بندش اور جادو بھی ذخیرہ اندوزی سے بڑا کاروبار ہے۔ حکومتی منشور وعدوں اور عمل کی بیلنس شیٹ کا بننا ضروری ہے۔ بقایا مدت میں کون سا تیر مار لیا جائیگا۔ وہی وزیر‘ وہی مشیر‘ وہی بیوروکریسی اور وہی سوچ اور عمل کی رفتار۔ عمران اکیلا کیا کر سکتا ہے۔ یہ وہ باپ ہے جو اولاد کو رات دن برا بھلا بھی کہے گھر سے تو نہیں نکال سکتا۔ کتنے لوگ اولاد کو عاق کرسکتے ہیں۔ عمران سبھی وزراء کو عاق کردیگا تو پھر حکومتی گھر میں زلزلہ تو ضرور آئیگا۔ ماں بھی سارا دن اولاد کو جھاڑتی رہتی ہے لیکن رات کو اسے بھوکا سونے نہیں دیتی۔ کونسا پاکستانی ایسا ہے جس کے اثاثے اسکی آمدن سے زیادہ نہیں۔ ماپ تول کا ایسا کوئی نظام یا آلہ سامنے نہیں آیا جو آمدن اور اثاثوں کا وزن برابر کرکے دکھا سکے۔ کونسا تھانیدار‘ انسپکٹر یا کلرک ایسا نہیں جسکے اثاثے آمدن سے دوگنے تگنے ہیں۔ کلرک کیسے قیمتی گھڑیاں گاڑیاں اور گھروں کے مالک بن جاتے ہیں۔ نئی سے نئی ہائوسنگ سکیمیں کن کی کمائیوں سے وجود میں آرہی ہیں۔ دوسری تیسری شادی رچانے والے بھی آمدن سے زیادہ اثاثے رکھنے والے زمرے میں آتے ہیں۔ عام پاکستانی فارن فنڈنگ سے بے خبر ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے سکروٹنی کمیٹی جمع کرائے گئے جواب میں موقف اختیار کیا ہے کہ پی ٹی آئی فنڈنگ کیلئے ملک سے باہر پاکستانیوں کو ایجنٹس مقرر کرتی ہے۔ قانون کے تحت ہر سیاسی جماعت پر لازم ہے کہ ہر سال حاصل کردہ فنڈ‘ اثاثے اور انکی آڈٹ رپورٹس جمع کروانا لازمی ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی پر الزام ہے کہ اس نے 2007ء سے 2012ء کے دوران جو فنڈ مختلف ممالک سے اکٹھا کیا‘ اسکی تفصیلات الیکشن کمیشن سے چھپائی گئیں جس پر 2018ء میں الیکشن کمیشن نے سکروٹنی کمیٹی بنائی۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود الیکشن کمیشن کی جانب سے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ دینے میں تاخیر کی جارہی ہے۔ سٹریٹ کرائم‘ مارکیٹوں میں لوٹ مار‘ گولیوں کی بوچھاڑ‘ ڈاکو قاتل اور چور‘ بھتہ خور اپنے عروج پر ہیں۔ نئے آئی جی کے انتخاب پر پولیس سروس کے اندر سے بھی آوازیں اٹھی ہیں۔ حکومت مہنگی ترین ایل این جی خریدنے کیلئے ماری ماری پھر رہی ہے جبکہ فراہم کنندگان اپنا زرضمانت ضبط کرانے پر تو تیار ہیں مگر گیس بیچنے پر تیار نہیں۔