پاکستان ،امریکہ اور جو بائیڈن

امریکہ میں جب بھی کوئی نیا صدر بر سر اقتدار آتا ہے تو پاکستان میںاس بات کی بڑی باز گشت سنائی دیتی ہے کہ اب امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی اور یہ تعلقات کیا پرانی ڈگر پر چلیں گے یا نیا صدر انہیں اپنے طریقے سے نبھانے کی کوشش کر ے گا۔ ٹرمپ کے دور میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات بڑی گرمجوشی میں ہوئی اور امریکی صدر نے عمران خان کو اپنا دوست قرار دیا لیکن ٹرمپ اپنی متلون مزاجی کی وجہ سے یا جسے ہم کہتے ہیں پل میں تولہ اور پل میں ماشا طبیعت کی وجہ سے تعلقات پروان نہ چڑھ سکے اور ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان پر الزام تراشی کی اور پاکستان کو بھارت کے کہنے پر دہشت گردوں کا گڑھ بھی قرار دیا۔ آخری دنوں میں ٹرمپ مشرق وسطی کے معاملے میں الجھے رہے اور اسرائیل کو عرب ممالک سے تسلیم کروانے کیلئے تگ و دو کرتے رہے جس میں وہ اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں کامیاب بھی رہے۔ٹرمپ کے اقتدار کے آخری دنوں میں طالبان اور افغانستان کے حوالے سے بھی اہم پیش رفت ہوئی جس میں افغان حکومت، طالبان اور امریکہ ایک معاہدے پر متفق ہوئے جس میں پاکستان کا کردار بھی کلیدی تھا ۔بعد میں ٹرمپ نے کشمیر کے معاملے پر ثالثی کی پیشکش کی لیکن یہ بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے معاملات آگے نہ بڑھ سکے۔ چونکہ امریکہ ایک سپر پاور ہے اور جو بائیڈن اب اس کے صدر بن چکے ہیں ۔ٹرمپ نے انتقال اقتدار کے عمل میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن امریکی اداروں نے معاملے کو اپنے ہاتھ میں لیا اور ٹرمپ کی اقتدار کو اپنے پاس رکھنے کی خواہش کامیاب نہ ہو سکی اور اب انہیں مواخذے کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ خیر یہ امریکہ کے اندرونی معاملات ہیں لیکن جو بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد جو اہم مسائل ہیں وہ پاکستان کو درپیش ہیں جن کے حوالے سے امریکی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنا اور پاکستان کے موقف کو پیش کرنا اب پاکستان کی حکومت کی بنیادی ترجیح ہو گی ان میں افغانستان میں امن عمل، پاکستان اور امریکہ کے مشترکہ مفادات کو برقرار رکھنا اور اس کے علاوہ انڈیا امریکہ تعلقات کے تناظر میں پاکستان کی پوزیشن کو بڑھانا اور مشرق وسطی میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی پالیسی کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں توازن برقرا ررکھنا شامل ہے۔ افغانستان امن عمل کی بات کریں تو طالبان اور امریکہ انخلا کے معاہدے پر متفق ہو چکے ہیں جس میں افغان حکومت بھی شامل ہے امریکہ اور افغانستان اس مشن میں پاکستان کے کردار کی تعریف بھی کر چکے ہیں ۔ٹرمپ مشرق وسطی کی طرح افغانستان سے فوری امریکی فوج کا انخلا چاہتے تھے جو یقینا نہ تو خطے کے مفاد میں تھا اور نہ ہی پاکستان کے مفاد میں اس لئے بائیڈن حکومت کی پالیسی یقینا ٹرمپ سے مختلف ہو گی اور جو بائیڈن ٹرمپ کی طرح متلون مزاج بھی نہیں ہیں تو کہا جا سکتا ہے اس حوالے سے پاکستان، افغانستان اور امریکہ مل کر ایک بہتر لائحہ عمل تشکیل دے سکیں گے۔ جو بائیڈن کے صدر بننے کے بعد پاکستان کو اس حوالے نئی امریکہ انتظامیہ کو بھی اعتماد میں لینا ہو گا کیوں کہ بھارت اقوام متحدہ میں طالبان سینکشن کمیٹی اور انسداد دہشت گردی کمیٹی کی سربراہی سنبھال چکا ہے۔ ایسے میں ایف اے ٹی ایف اور طالبان کے حوالے سے بھارتی پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے امریکہ کی نئی حکومت میں پاکستانی انتظامیہ کو متحرک ہونا ہو گا اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی لابی کو بھی متحرک کرنا ہو گا۔پاکستان کو چین کی صورت میں اقوام متحدہ میں اہم اتحادی کی حمایت تو حاصل ہے لیکن بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ بھی بہتر تعلقات ہماری ترجیح ہونی چاہئے کیوں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی چین مخالف پالیسی کی وجہ سے بھارت امریکہ کے قریب ہو رہا تھا اور اسی وجہ سے مودی نے ٹرمپ کو امریکہ میں بھارتی کمیونٹی کے ایک بڑے جلسے سے خطاب بھی کروا دیا ۔یقینا جو بائیڈن اور ان کی ٹیم کے علم میں یہ ساری باتیں موجود ہوں گی تو ایسے میں پاکستان کو ٹرمپ کارڈ ضرور استعمال کرنا چاہئے اور جو بائیڈن انتظامیہ کو باور کرانا چاہئے کہ ماضی میں مودی سرکار کس طرح ٹرمپ کو جتوانے کیلئے بھارتی کمیونٹی کا استعمال کر چکی ہے۔ جو بائیڈن کی نائب صدر کملا ہیر س بھارتی نژاد خاتون ہیں ۔کملا ہیرس صرف پہلی خاتون نائب صدر ہی نہیں بلکہ ان کے والدین کے جمیکا اور انڈیا سے تعلق کی وجہ سے وہ پہلی غیرسفید فام شخصیت بھی ہیں جو امریکہ کی نائب صدر بن رہی ہیں۔ماضی میں کملا مودی کی فاشسٹ پالیسیوں کی وجہ سے ان پر کافی تنقید کر چکی ہیں اس کے علاوہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے بھی ان کے بیانات ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ پاکستان کو ان کے اسی موقف کی وجہ سے امریکہ میں اپنی لابی کو متحرک کرنا ہو گا اور کملا ہیرس کے ماضی میں مودی مخالف بیانئے کو لے کر انہیں یہ باور کرانا ہو گا کہ مودی کشمیر میں پچھلے ڈیڑھ سال سے کرفیو نافذ کئے ہوئے ہے اور اس دوران سینکڑوں مسلمان شہید کئے جا چکے ہیں تا کہ نئی امریکہ انتظامیاں کو بتایا جا سکے کہ بھارت خطے میں اقلیتوں کے ساتھ کس طرح ناروا سلوک کر رہا ہے۔اوباما دور میں جب جو بائیڈن نائب صدارت پر فائز تھے تو کیری لوگر کے ساتھ مل کر پاکستان کوکئی ارب بلین ڈالر کی امداد بھی دلوائی تھی جس پر 2009 میںاس وقت کے پاکستان کے صدرآصف علی زرداری نے انہیں ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہری اعزاز ہلال پاکستان سے نوازا تھا۔پاکستان کو ماضی کے تعلقات اور مستقبل کے منظر نامے اور اوپر بیان کردہ عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ روادری پر مبنی تعلقات کیلئے کام کرنا چاہئے اور ٹرمپ کے برعکس جو بائیڈن کی شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ کوئی مشکل ٹاسک نہیں ہو گا۔