حمزہ شہباز کی ضمانت‘ ہائیکورٹ میں 29 جنوری کو سماعت
لاہور (وقائع نگار خصوصی) اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز کی نیب کے منی لانڈرنگ الزامات کے تحت تحقیقات کے دائرہ اختیار کیخلاف اور رمضان شوگر ملز کیس میں ضمانت پر رہائی کیلئے دائر درخواستیں سماعت کیلئے مقرر کر دی گئیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں قائم دو رکنی بنچ 29 جنوری کو سماعت کرے گا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق عباسی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کیس دوسرے بنچ کے روبرو سماعت کیلئے مقرر کرنے کی سفارش کی تھی جس پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے درخواستیں سماعت کے لیے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ کو بھجوا دیں۔ حمزہ شہباز کی آئینی درخواستوں میں چیئرمین نیب اور ڈی جی نیب کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ حمزہ شہباز کو سیاسی خاندان سے تعلق ہونے پر سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نیب نے منی لانڈرنگ کیس میں حمزہ شہباز کے ملازمین کو ہی بے نامی دار بنا دیا اور حمزہ شہباز کی گرفتاری کے 189 دن گزرنے کے باوجود ابھی تک کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا، ملزم کیخلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع کرتے ہوئے نیب آرڈیننس کی دفعہ 18 کو پس پشت ڈالا گیا، اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی بھی خلاف ورزی کی گئی جبکہ حمزہ شہباز کیخلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات آئین کے آرٹیکل 10 اے کی بھی خلاف ورزی ہے، نیب کو سرے سے منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات کا اختیار نہیں، اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ خصوصی قانون ہے جس میں چیئرمین نیب کو مداخلت کا اختیار نہیں ہے۔ نیب کی تحقیقات 2005 سے 2008 کے دوران بیرون ملک سے موصول ہونے والی رقم کے گرد گھومتی ہیں، جبکہ اس عرصہ میں حمزہ شہباز پبلک آفس ہولڈر نہیں رہے، بیرون ملک سے وصول رقم 14 سال پرانی ہے جس کا صرف محدود ریکارڈ موجود ہے، حمزہ شہباز کی رمضان شوگر ملز کیس میں ضمانت کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ جس نالے کی تعمیر کا الزام عائد کیا گیا ہے وہ نالہ عوامی مفاد میں بنایا گیا تھا۔ مذکورہ نالے کی تعمیر صوبائی کابینہ کی منظوری اور اجازت سے ہوئی، سیاسی انتقام کی بنیاد پر گرفتاری کی گئی جبکہ شریک ملزم کی درخواست ضمانت عدالت منظور کر چکی ہے۔ حمزہ شہباز کی جانب سے استدعا کی گئی ہے کہ عدالت منی لانڈرنگ کی تحقیقات کو غیر قانونی و غیرآئینی قرار دے کر کالعدم کرے اور دونوں درخواستوں کے حتمی فیصلے تک ضمانت پر رہا کرنے کا بھی حکم دیا جائے۔