اب پاکستان کا نام ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کا امکان روشن ہے
برطانیہ کی جانب سے پاکستان کیلئے سفری شرائط میں نرمی اور اسکے محفوظ ملک ہونے کا عندیہ
برطانیہ نے پاکستان کیلئے ٹریول ایڈوائزری کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان میں سکیورٹی کی صورتحال بہتر ہونے کے باعث یہ اقدام اٹھایا جارہا ہے۔ اس سلسلہ میں برطانوی ہائی کمیشن کی جانب سے جاری کئے گئے ایک اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان تک سفر کی پابندیاں نرم کرنے کا فیصلہ پاکستان کی سکیورٹی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد کیا گیا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ برطانیہ نے 2015ء کے بعد پہلی بار پاکستان تک سفری پابندیوں کو نرم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت گزشتہ سال جون میں برٹش ایئرویز کی پاکستان تک سروس بحال کی گئی اور گزشتہ برس اکتوبر میں برطانوی شہزادہ ولیم اور انکی اہلیہ شہزادی کیٹ نے پاکستان کا دورہ کیا۔ برطانیہ کی نئی ٹریول ایڈوائزری کے تحت پاکستان کے شمالی علاقوں تک سڑک کے ذریعے سفر کرنے کی بھی اجازت دے دی گئی ہے۔ اسی طرح وادیٔ کیلاش تک بھی سفر کی اجازت دی گئی ہے۔ پاکستان میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر ڈاکٹر کرسچن ٹرنر نے اس حوالے سے بتایا کہ انہوں نے پاکستان میں بطور ہائی کمشنر ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد ٹریول ایڈوائس کا جائزہ لیا اور انہیں یہ کہنے میں خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ پاکستان کی حکومت نے گزشتہ پانچ سال میں سکیورٹی صورتحال بہتر بنانے کے سلسلہ میں سخت محنت کی ہے اور اب برطانوی شہری پاکستان میں وہ سب کچھ دیکھ سکیں گے جو پاکستان میں قابل دید ہے۔ برطانوی ہائی کمشنر کے اعلامیہ کے مطابق پاکستان کیلئے گزشتہ روز سے سفری ہدایات تبدیل کردی گئی ہیں جو پاکستان میں سکیورٹی صورتحال کی بہتری کا عکاس ہے۔
برٹش ایئرویز نے ستمبر 2008ء میں میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں ہونیوالے بم دھماکہ کے بعد پاکستان کیلئے اپنی پروازیں غیرمعینہ مدت کیلئے بند کی تھیں جو اب پاکستان کی سکیورٹی صورتحال بہتر ہونے کے باعث بحال کی گئی ہیں۔ وزیراعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے ٹویٹر پیغام کے مطابق برطانیہ کی جانب سے پاکستان کیلئے ٹریول ایڈوائزری میں مثبت تبدیلی خوش آئند اور اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستان کا بیرونی دنیا میں امیج تبدیل ہورہا ہے جو پرامن‘ روشن اور محفوظ پاکستان کی علامت ہے۔ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے بقول برطانیہ کی ٹریول ایڈوائزری میں تبدیلی کا کریڈٹ قوم اور مسلح افواج کو جاتا ہے اور اگر میرٹ پر پاکستان کا کیس دیکھا گیا تو پاکستان کا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نام نکل جائیگا۔ انہوں نے اس سلسلہ میں اپنے ہم منصب برطانوی وزیر خارجہ سے بھی بات کی تھی جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی اس معاملہ میں بات ہوئی ہے۔ انکے بقول سعودی عرب‘ ترکی اور ملائشیا سیاحت کے فروغ میں پاکستان کی مدد کرینگے۔ آج پاکستان میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہے جس سے دنیا میں پاکستان کا امیج بھی بہتر ہوا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ دو دہائی قبل تک پاکستان کا شمار دنیا کے پرامن اور پرسکون ممالک میں ہوتا تھا۔ یہاں دن چہچہاتے اور راتیں جاگتی تھیں۔ اسی تناظر میں کراچی کو عروس البلاد‘ روشنیوں کا شہر اور لاہور کو زندہ دلوں کا شہر تصور کیا جاتا تھا۔ اسکے سرحدی اور شمالی علاقہ جات سیاحوں کیلئے قابل دید مقامات تھے جہاں ملکی اور غیرملکی سیاحوں کا ہمہ وقت جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ دنیا میں پاکستان کا شمار صنعتی اور سیاحتی ترقی کے حوالے سے تیزی سے ابھرتے ہوئے ممالک میں کیا جاتا تھا اور لوگ اس خطۂ امن میں آکر آسودگی محسوس کرتے تھے۔ بلوچستان اور کراچی میں کبھی کبھار فرقہ ورانہ کشیدگی کی فضا ضرور لوگوں کیلئے تشویش کا باعث بنتی تھی تاہم اس فضا میں بھی کسی کو خودکش حملے یا دہشت گردی کی کسی دوسری بڑی واردات کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ امریکی نائن الیون کے بعد بدقسمتی سے اس وقت کے جرنیلی آمر پرویز مشرف نے افغان جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار بسروچشم قبول کرلیا جس کے تحت افغانستان کو تورابورا بنانے والی امریکی نیٹو فورسز کو اپنی جنگی کارروائیوں کیلئے پاکستان کی جانب سے لاجسٹک سپورٹ فراہم کی گئی اور پاکستان کے تین ایئربیسز بھی امریکہ کے حوالے کردیئے گئے جہاں سے نیٹو فورسز کے جنگی جہاز اڑان بھرکر افغانستان جاتے اور وہاں کیمیکل ہتھیاروں سے شہری آبادیوں پر کارپٹ بمباری کرکے انسانی خون کی ندیاں بہاتے۔ پاکستان کے اس کردار کی ادائیگی میں امریکی ڈومور کے تمام تقاضے سرتسلیم خم کرکے نبھائے جاتے رہے جس کے ردعمل میں متاثرہ افغان باشندوں کی جانب سے طالبان کے روپ میں پاکستان میں دہشت گردوں کی نرسریاں قائم کردی گئیں چنانچہ یہ ارض وطن خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری سفاکانہ وارداتوں کی بری طرح لپیٹ میں آگئی۔ پاکستان کا فرنٹ لائن اتحادی کا کردار نیٹو فورسز کی افغانستان سے واپسی تک جاری رہا اور اسی کے ردعمل میں ہمیں ملک کے مختلف حصوں میں خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا سامنا رہا۔ چونکہ دہشت گردوں نے اپنے زیادہ تر ٹھکانے شمالی‘ جنوبی وزیرستان اور سرحدی و شمالی علاقہ جات میں قائم کئے تھے اس لئے سیاحتی مقامات کے حوالے سے معروف یہ علاقے انسانی خون میں لتھڑے نظر آنے لگے جبکہ ہمارے ازلی مکار دشمن بھارت نے بھی اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی نیت سے پاکستان میں دہشت گردی کیلئے اپنی ایجنسی ’’را‘‘ کو متحرک کردیا جس کے تربیت یافتہ دہشت گرد بھاری اسلحہ کے ساتھ افغان سرحد سے پاکستان میں داخل ہوتے اور اسکے مختلف حصوں میں دہشت و وحشت کے بازار گرم کرتے رہے چنانچہ دہشت گردی کی ان وارداتوں میں سکیورٹی فورسز کے افسران ‘اہلکاروں اور سیاست دانوں سمیت ملک کے 70 ہزار سے زائد شہریوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔ اتنی ہی تعداد میں لوگ زخمی ہوکر مستقل اپاہج بن گئے جبکہ پاکستان کی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا۔ اسکے ساتھ ساتھ ہمارے موذی دشمن بھارت نے پاکستان میں موجود دہشت گردوں کی نرسریوں کے حوالے سے اقوام عالم میں پاکستان کیخلاف مذموم پراپیگنڈہ کیا‘ اس پر دہشت گردوں کے سرپرست کا لیبل لگوانے کی مذموم سازش کی اور اسے عالمی تنہائی کی جانب دھکیلنے کی سفارتی کوششوں میں مگن ہو گیا جبکہ اسکے بھجوائے دہشت گردوں نے اپنی گھنائونی وارداتوں کے ذریعے بیرونی دنیا میں پاکستان کے غیرمحفوظ ملک ہونے کا تاثر قائم کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
پاکستان پر یہ افتاد بلاشبہ امریکی افغان جنگ میں اسکے فرنٹ لائن اتحادی کے کردار کی ادائیگی کے باعث ہی ٹوٹی جس میں بھاری جانی اور مالی نقصان بھی پاکستان کا ہوا اور ان عظیم قربانیوں کے باوجود پاکستان کے کردار پر شک و شبہ کا اظہار بھی کیا جانے لگا اور اسی تناظر میں پاکستان کی سرزمین پر امریکی ڈرون حملوں کا لامتناہی سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ بھارت نے موقع سے فائدہ اٹھا کر 12 سال قبل 2007ء میں قذافی سٹیڈیم لاہور میں جاری سری لنکا اور پاکستان کرکٹ ٹیسٹ میچ کو ٹارگٹ کیا اور سری لنکن ٹیم پر دہشت گردوں کا حملہ کرادیا۔ اس واردات کے باعث ہی اسے پاکستان کے غیرمحفوظ ملک ہونے کا پراپیگنڈہ کرنے کی مزید سہولت ملی۔ اس نے پہلے خود اپنے کھلاڑیوں‘ فنکاروں اور دیگر مکاتب زندگی کے لوگوں پر پاکستان جانے پر پابندی عائد کر دی اور پھر عالمی کرکٹ سے منسلک دیگر ممالک بشمول برطانیہ‘ آسٹریلیا‘ ویسٹ انڈیز‘ سری لنکا‘ نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش تک کو اپنی ٹیمیں پاکستان نہ بھیجنے پر قائل کرلیا۔ دہشت گردی کی بڑھتی وارداتوں کے باعث پاکستان کے غیرمحفوظ ملک ہونے کا تاثر بھی اقوام عالم میں پختہ ہوتا رہا اور میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں 2008ء کی دہشت گردی کی واردات نے برطانیہ کو پاکستان کیلئے اپنی قومی ایئرلائنز کی پرواز بند کرنے کا موقع بھی فراہم کر دیا جبکہ دسمبر 2014ء کے سانحۂ اے پی ایس نے پاکستان پر دہشت گرد ملک ہونے کا لیبل لگوانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ یہی وہ وقت تھا جب ملک کی تمام سیاسی سول اور عسکری قیادتوں نے دہشت گردوں کو مکمل نکیل ڈالنے کا عزم باندھا اور پارلیمنٹ کے ذریعے ایک جامع نیشنل ایکشن پروگرام وضع کرلیا۔ اسکے تحت جہاں شمالی‘ جنوبی وزیرستان‘ مہمند‘ خیبر ایجنسی اور ملک کے دوسرے علاقوں میں مختلف ناموں کے ساتھ سکیورٹی فورسز کے اپریشنز کا آغاز کیا گیا وہیں دینی مدارس کی بھی ٹھوس بنیادوں پر سکروٹنی کی گئی اور دہشت گردی کے خاتمہ کے دیگر تمام ممکنہ اقدامات بھی اٹھائے گئے چنانچہ قوم کی تائید و حمایت کے ساتھ ہماری سکیورٹی فورسز کے اپریشنز کے نتیجہ میں جن میں سکیورٹی فورسز کو بھی جانی اور مالی نقصانات اٹھانا پڑے‘ بالآخر ملک میں امن و امان واپس لوٹ آیا اور پاکستان کا سافٹ امیج دنیا بھر میں اجاگر ہونے لگا۔ اس کیلئے کراچی اور لاہور میں گزشتہ تین سالوں کے دوران پاکستان سپرلیگ (پی ایس ایل) کے انٹرنیشنل کرکٹ میچوں سے بھی پاکستان کے محفوظ ملک ہونے کا تاثر پختہ ہوا ہے چنانچہ اب پاکستان کیلئے سیاحت کے دروازے بھی کھل رہے ہیں اور پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) نے پاکستان میں تجارتی سرگرمیوں کے راستے بھی ہموار کردیئے ہیں۔
ایف اے ٹی ایف نے بھارتی سازشوں کے تحت پاکستان کا نام دہشت گردی کو فروغ دینے والے ممالک کی گرے لسٹ میں شامل کر دیا تھا جبکہ بھارت نے پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں ڈلوانے کی بھی ہر ممکن کوشش کی تاہم عساکر پاکستان نے اپنی بے مثال قربانیوں سے دہشت گردی کی جنگ جیت کر دنیا میں پاکستان کا سافٹ امیج پھر اجاگر کردیا ہے۔ چنانچہ جہاں اب برطانیہ نے پاکستان کیلئے اپنی نئی ٹریول ایڈوائزری کے تحت برطانوی باشندوں کو پاکستان کا سفر کرنے کی اجازت دے دی ہے وہیں اپنی قومی ایئرلائنز کو بھی پاکستان تک جانے کی اجازت دے دی ہے۔ اسی تناظر میں چین کی جانب سے پہلے ہی پاکستان کے محفوظ ملک ہونے کی وکالت کی جارہی ہے جس کے دفتر خارجہ کی جانب سے عالمی برادری پر زور دیا گیا ہے کہ وہ دہشت گردی کیخلاف پاکستان کی بے بہا قربانیوں کا اعتراف کرے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی گزشتہ ہفتے ڈیووس میں امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران ان پر پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکلوانے کیلئے کردار ادا کرنے پر زور دیا ہے چنانچہ ایف اے ٹی ایف کے آئندہ اجلاس میں پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکالے جانے کا قوی امکان ہے۔ بلاشبہ یہ پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہوگی جس سے ملک کی سیاحت اور اقتصادی ترقی کی راہیں کھلیں گی اور ملازمتوں کے بھی بے شمار مواقع نکلیں گے۔ وزیراعظم عمران خان کا آئندہ دوسروں کی جنگ نہ لڑنے کا عزم یقیناً ایک آزاد و خودمختار ملک کی حیثیت سے اقوام عالم میں پاکستان کا مقام بلند کریگا اور یہ ترقی و استحکام سے ہمکنار ہوگا۔