بچوں کی مناسب تربیت اور والدین کی ذمہ داریاں
کل کچھ اخبارات کی ورق گردانی کے دوران اشتہارات پے نظر گئی کہ کسی پریشان حال باپ نے اپنے نافرمان بیٹے کو جائداد سے عاق کرکے اشتہار دیا تھا کہ اُسکا اب بیٹے سے کوئی تعلق نہیں، اِس قسم کے اعلانِ لاتعلقی جیسے اشتہارات معاشرے کی زبوں حالی کا منہ بولتا ثبوت ہیں، مانا کہ اِس اشتہار کو دینے کی نوبت انتہائی مراحل میں پہنچ کر آئی ہوگی،کوئی باپ اپنی اولاد کو کس نہج پہ جا کر عاق کر سکتا ہے اسکا بھی اندازہ ہے، لیکن یہ بھی ایک المیے سے کم نہیں ہے کہ آج کل نئی نسل کے والدین کا تربیت کے اعتبار سے بچوں کے ساتھ تعلق بہت کم ہے، لاڈ اور پیار سے بچے اِس قدر بگڑجاتے ہیں کہ وہ اپنے آگے والدین کی ایک نہیں مانتے اور یہ سلسلہ چلتے چلتے اعلان لا تعلقی جیسے اشتہارات تک جا پہنچتا ہے، پرانے زمانے کے والدین میں ایک کہاوت مشہور تھی کہ کھلائو سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نگاہ سے، اور وہ والدین اس کہاوت کی صداقت سے پوری طرح واقف ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کی بہترین تربیت کر گئے، آج نئی نسل کے والدین میںضرورت اس امر کی ہے کہ بچے کو پیار کے ساتھ غلطیوں پر مناسب انداز میں سر زنش کریں، بچے کو اِس بات کا عادی بنائیں کہ وہ آپکی آنکھ کا اشارہ دیکھ کر آپکا مزاج سمجھے ،وگرنہ بعد میں سوائے کفِ افسوس ملنے کے کوئی چارہ نہیں ہوگا، اسلام نے اولاد اور والدین دونوں کے حقوق و فرائض مقرر کیئے ہیں، بے جا سختی سے بھی قطعا پرہیز کریں،اولاد کی تربیت کا مطلب صرف انھیں صبح اسکول اور شام میں مدرسے بھیجنا ہی نہیں ہے، اُنکے خوشی اور غم کے ساتھی بنیں، اُنکے ساتھ وقت گزاریں، اُنکے مسائل کو توجہ سے سنیں، اگر ایک سے ذیادہ اولاد ہے تو سب کے درمیان مساوات اور برابری کا سلوک کریں، بچوں کی پسند اور نا پسند کاخیال رکھیں، باپ ، ماں کیلئے بچوں کو احساس دلائے ، ماں باپ کیلئے بچوں میں احساسِ محبت پیدا کرے، والدین اپنے آپس کے تعلقات میں کسی چپقلش کو نہ آنے دیں، اور اگر ہے تو اُسے بچوں کے سامنے نہ آنے دیں، بچوں کی مناسب تربیت ایک انتہائی حساس معاملہ ہے، اس پہ والدین اپنی ذمہ داری کوروز اول سے محسوس کریں تو کسی انتہائی اقدام کی طرف جانا ہی نہ پڑے۔محمد رافع حسین، کراچی