وزیر اعظم کی محنت رنگ لے آئی
اتفاق ہی کہوں گا اسے کہ جب بھی لکھنے بیٹھتا ہوں عین اسی وقت کسی نہ کسی رشتہ دار دوست یاپھر پڑھنے والوں میں سے کسی نہ کسی کا فون آجاتا ہے ،آج بھی یہی ہو ا اچھا بھلاموڈ بنایا ہوا تھا آٹے کے بحران کے پیچھے چھپے کرداروں پر لکھنے کو مگر اچانک سیل فون کی گھنٹی بجی جس نے رُخ ڈیووس کی جانب کردیا جہاں عالمی اقتصادی فورم کی سرگرمیاں سخت سردی کے باوجود عالمی راہنماؤں کو گرمائے ہوئے ہیں ۔اس جانب توجہ مبذول کی تو ہمیں وزیراعظم عمران خان کافی گرما گرم یعنی متحرک دکھائے دئیے جو دُنیا خصوصاً امریکی صدر کی توجہ مسئلہ کشمیر کی جانب مبذول کروانے کی دل سے کوشش کر رہے تھے اور ساتھ ہی افغان امن عمل کا زکر کرتے ہوئے اس مسئلہ پر امریکہ اور پاکستان کے ایک پیج پر ہونے کا عزم بھی ظاہر کر رہے تھے۔پاکستان کے حوالے سے دونوں نکات انتہائی اہم نظر آئے اسی لئے اسی پر لکھ رہے ہیں ؟ وزیراعظم عمران خان نے ڈیووس میں تین مواقعوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ایک اقتصادی فورم سے خطاب کرتے ہوئے اور دوسرا پاکستان اسٹریٹجی ڈائیلاگ اور تیسرا انٹرنیشنل میڈیاکونسل سے خطاب کرتے ہوئے ۔مگر یہاں کالم کے سپیس کی کمی کے باعث وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہونیوالی اس مختصرمگر اہم ملاقات پر ہی بات کی جاسکتی ہے ۔ اس ملاقات میں وزیراعظم عمران خان نے امریکی صدر کو مخاطب کرتے ہوئے ایکبار پھر دوٹوک الفاظ میں انہیں باور کرایا کہ پاکستان اب اپنی سرزمین کسی کو استعمال کرنے کی اجازت دیگا نہ ہی کسی کی جنگ میں حصہ دار بنے گا بلکہ وہ اس کا حامی اور حصہ دار بنے گا جو خطے میں جنگ کی بجائے امن کا خواہاں ہوگا ۔پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے اور امن کے لئے ہی کام کرتا رہے گااور جہاں تک وہ سمجھتے ہیں خطے میں قیام امن کے حوالے سے پاکستان اور امریکہ ایک پیج پر ہیں ۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ عمران خان اِن کے دوست ہیں جس سے دوبارہ ملنے پر انہیں خوشی ہوئی ہے ۔ہم پاکستان کے اتنے قریب نہیں تھے جتنے اب ہیں ۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے مابین اچھے تعلقات ہیں ، پاکستان اور امریکہ مل کر کچھ سرحدوں پرکام بھی کررہے ہیں۔اس ملاقات میں امریکی صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی اپنی پیشکش کا اعادہ بھی کیا اور کہا کہ وہ کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور اُن سے جو بھی بن سکا وہ مسئلہ کے حل کیلئے کریں گے ۔
ملاقات میں کی جانے والی تمام باتوں کو دیکھا جائے تو ا س میں پاکستان کے حوالے سے اہم ترین ایشو مسئلہ کشمیر ہی کا تھا جس پر وزیر اعظم عمران خان نے بھی زور دیا جبکہ اس ملاقات پر پاکستان میں سیاسی و سفارتی مبصرین کے علاوہ امریکہ میں تعینات رہنے والے اکثرسابق سفیروں نے بھی اپنے اپنے نکتہ نظر سے تجزئیے کئے اور کہا کہ اگر امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان امریکہ کے پہلے اتنے قریب کبھی نہیں رہا جتنا اب ہے تو ایسے میں پاکستان کو چاہیے کہ وہ امریکہ پر مسئلہ کشمیر کے حل میں مدد دینے ہی پر زور دے اور اس سے یہ مسئلہ حل کروائے کہ یہی وقت ہے کہ امریکہ ایسا کرنے پر سوچ سکتا ہے مگر جہاں تک اس سلسلے میں ہماری ذاتی رائے کا تعلق ہے جو سو فیصد درست نہیں بھی ہو سکتی اوروہ یہ کہ اگر اس موقع غنیمت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے پاکستان اپنے آپ کو گرے لسٹ سے ہی نکلوا لیتا ہے تو یہ ملک کی رواں اور مستقبل کی صورتحال میں سب سے بڑی خدمت ہوگی کیونکہ گرے لسٹ ترپ کا ایسا پتہ ہے جو امریکہ نے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے اور وہ اسے پاک چین روس ایران بلاک کو تقویت پکڑتے دیکھ کر کسی بھی وقت استعمال کر سکتا ہے ۔لہذاوقت کا تقاضا یہی ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کی موجودہ بہتری سے یہی ایک فائدہ اٹھا لیا جائے تو اسے غنیمت سمجھاجائے کیونکہ کشمیر پر امریکہ کبھی بھارت کو ناراض کرنے کا رسک نہیں لے گا نہ لینا چاہتاہے اور اس کا پس منظر میں آپ اور ہر کوئی جانتا ہے ۔یہ ٹرمپ کی ثالثی والثی کی پیشکثیں ویسے ہی وقت گذاری کی باتیں ہیں انہیں سنجیدہ نہیں لیا جانا چاہیے۔باقی رہی ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ بات کہ پاکستان آج جتنا امریکہ کے قریب ہے پہلے اتنا کبھی نہیں رہا تو یہ بات واقعی قابل زکر ہے اور اسی پر ہم بھی فوکس کئے دیتے ہیں۔اس بات پر غور کیاجائے تو اس میں پی ٹی آئی کے سربراہ وزیراعظم عمران خان ہی پر نظر جا کر ٹہرتی ہے کہ امریکی صدر نے اُن ہی سے ہونے والی ملاقات میں یہ بات کی اور یہ بھی کہا کہ عمران خان اُن کے دوست ہیں ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لاکھوں پرستاروں کی طرح ٹرمپ بھی اُن کے پرستار ہی ٹہرے ہیں ورنہ تو کسی بھی ملک کے سربراہ سے ملتے وقت اُن کی زباں سے یہ الفا ظ سننے میں نہیں آئے۔ماضی میں جھانکا جائے تو سابق صدر ایوب خان مرحوم کا ایک دور ایسا دکھائی دیتا ہے جب اسی طرح پاکستان اور امریکہ آپس میں انتے قریب تھے جتنا آج وزیراعظم عمران خان کے دور میں برسوں بعد قریب آئے ہیں ۔بدقسمتی یہ ہوئی کہ ایوب خان مرحوم کی فوجی حکومت کے بعدآنے والی جمہوری حکومتوں کا دور
شروع ہوا جس میں ملکی مفادات کی جگہ ذاتی مفادات نے لے لی ،ملکی مفادات پس پشت ڈال دئیے گئے اور ہر اک نے ملکی خدمت کو کاروبار بنا لیا اور انتخابات کے اخراجات کو انویسٹمنٹ سمجھتے ہوئے ا س میں سرمایہ کاری کرنی شروع کردی۔ یہ سلسلہ 2013 کے انتخابات تک جاری رہا ۔یہ افسوناک صورتحال بتدریج مانیٹر کی جارہی تھی اور الحمداللہ 2018کے انتخابات میں ملک کی ایک ایسی قیادت میسر آہی گئی جس نے ملکی مفادات کی گاڑی کو ایک بار پھر پٹر ی پر ڈالنے کا عزم کر لیا اور سادگی کی مثال قائم کرتے ہوئے وزیر اعظم ہاؤس کے پُر تعیش محل سے منہ موڑ کر ملکی مفادات کی ٹھکرائی ہوئی جھونپڑی کو اپنا مسکن بنالیا اور یوں ڈیڑھ سال کی سختیاں جھیلنے کے بعد ارض وطن کو ایکبار پھر اس مقام پر پہنچا دیا جہاںیہ باون ترپن سال پہلے قابل فخر مقام پر تھا۔