مودی سرکار کی انتہاپسندانہ پالیسی ناکام
سجاد اظہر پیرزادہ
sajjadpeerzada1@hotmail.com
برطانوی انڈین ایکٹ 1919کے تحت‘دسمبر 1945 سے جنوری1946تک‘ ہندوستان پر قابض انگریز راج کی زیرنگرانی انتخابات میں‘102 منتخب سیٹوںپر59سیٹیں کانگریس نے جیت کر مرکز میں حکومت بنانے کی راہ ہموار کی ‘تو آل انڈیا مسلم لیگ نے اِن انتخابات میں مسلمانوںکی نمائندگی کرنے والے تمام کے تمام30انتخابی حلقے جیت کر کانگریس کوپورے ہندوستان پر قبضہ کرکے مسلم اکثریتی علاقوںمیں موجود مسلمانوں کے حقوق غصب کرنے سے روک دیاتھا۔یہ قائداعظم ایم اے جناح کا نیشنل انڈین کانگریس کو مسلم اکثریتی علاقوںمیں رہنے والے مسلمانوں کے حقوق غضب کرنے سے روکنے کا پہلا کارنامہ تھا، دوسرا کارنامہ جناح صاحب نے پاکستان میں شامل ہونے کی خواہش رکھنے والے کشمیریوں کی خاطر اپنی آواز اُٹھا کر انجام دیا۔قائداعظم کے اِن دو کارناموںکوپاکستانی اور کشمیری آج بھی یاد رکھتے ہیں۔قائد اعظم کے اِن دو کارناموں میں سے ایک کا احترام انگریز نے بھی کیا۔برطانوی پارلیمنٹ نے 1945-1946کے انتخابات کے 5ماہ بعد 15جولائی 1946 کو ہندوستان کوایک ماہ بعد آزاد کرنے کی قرار داد پاس کر لی۔ اُس میں مگر کشمیر سمیت ہندوستان کی دیگر 507 آزادریاستوں کے متعلق کوئی پالیسی نہیں تھی۔برطانوی پارلیمنٹ کی قرارداد کے مطابق ایک ماہ بعد15اگست کوہندوستان دو آزاد مملکتوں میں تقسیم ہوگیا۔برطانیہ پر اُس وقت لیبر پارٹی کی حکومت تھی،جودوسری جنگ عظیم کے بعدسونے کی چڑیاکا معاشی خرچہ سہ نہیں پارہی تھی۔برطانوی راج نے کسی مزید آئینی محنت کے بغیر آزاد ریاستوںکو یہ اختیار دے دیا کہ وہ جس کے ساتھ مرضی الحاق کریں۔ریاست کشمیر میں اکثریتی آبادی مسلم تھی‘ پاکستان کے ساتھ ‘جو الحاق کرناچاہتی تھی۔ انڈین سرکار نے مگر بعد ازاں کچھ ہلچل مچی دیکھ کر اپنی فوج کشمیر میں بھیجی اور پاکستان کے ساتھ اپنے مستقبل کے سہانے خواب دیکھنے والے کشمیریوںپرناجائز قبضہ کر لیا۔پاکستان حکومت نے احتجاج کیا توانڈین سرکار نے اقوام متحدہ میں کشمیرکے آزادانہ انتخابات کا وعدہ کر لیا۔انڈین سرکار نے مگر 26 جنوری 1950کو انڈیا کا آئین تشکیل دے کر کشمیریوں کے حق ِ آزادی پر ڈاکہ ڈال دیا۔26جنوری 1950کوآئین ساز اسمبلی آف انڈیا کے جو ممبرز آئین میںمقبوضہ کشمیر کوانڈیا کا حصہ قراردے رہے تھے ‘ وہ برطانوی راج کے تحت ہونے والے 1945-1946کے انتخابات میں منتخب ہوئے تھے۔کانگریس کے اِنہی منتخب ہوئے 59ممبرز نے بعد ازاں آئین ساز اسمبلی آف انڈیا تشکیل دی ‘ اور قائداعظم کی زیر قیادت آل انڈیا مسلم لیگ نے 15اگست 1947ء کومسلمانوںکے حقوق کو تحفظ دینے کے لئے اپنا نیا ملک حاصل کر لیا۔یہ برٹش انڈیا میں آخری عام انتخاب تھے ۔اس کے بعد ہندوستان میں عام انتخابات 1951 اور پاکستان میں 1970میں ہوئے۔
یہ یاد رکھنا چاہئے کہ 1945-1946کے انتخابات میں ریاست کشمیرنے حصہ نہیں لیا تھا۔تحقیق کی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ 1945-1946کے انتخابات میں ‘ انڈیا کی 507نوابی ریاستوں نے انڈین ایکٹ 1935ء کے تحت حصہ لینے سے انکار کیا تھا‘اِس انکار میں ریاست کشمیر بھی شامل تھی، اِن ریاستوں نے 1935ایکٹ کے تحت الیکشن میں حصہ لینے سے انکار اس لئے کیا تھا کہ اِس ایکٹ کے 321سیکشنز اور 10شیڈولز میں وہ شق بھی شامل تھی‘ جس میں یہ درج تھا کہ انتخابات کے بعد انڈیا کو ’’متحدہ ہندوستان‘‘ بنادیا جائے گا۔کشمیر سمیت دیگر ریاستوںکے راضی نہ ہونے پر ‘ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے مقامی لوگوںکو آپس میں لڑا کر3صدیوں سے راج کرنے والے انگریز نے 45-46کے انتخابات انڈین ایکٹ 1935کے تحت کروانے کا اپنا فیصلہ بدل لیا۔برٹش راج نے 1945-1946کے الیکشن برطانوی انڈین ایکٹ 1919کے تحت کروائے۔کشمیر سمیت آزاد ریاستوں نے اِن انتخابات میںحصہ نہیں لیا ۔یہی وجہ بنی کہ 375سیٹوںمیں سے 102سیٹیں پُر ہوسکیں۔ یہ انتخابات آل انڈیا مسلم لیگ کے لئے سٹریٹجک فتح ثابت ہوئے۔ کانگریس اگرچہ59سیٹیںلے کر الیکشن جیت گئی تھی ، تاہم آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوںکے تمام30 انتخابی حلقوںسے الیکشن جیت کر مسلمانوں کیلئے ایک نیا آزاد وطن پاکستان بنانے کی طاقت حاصل کر چکی تھی۔یہ طاقت پاکستان کے قیام کے لئے پہلا عملی قدم ثابت ہوئی!۔ تحقیق کے مطابق انگریزنے الیکشن سے پہلے ہندوستان کو آزاد کرنے کا فیصلہ کیا ہو یانہ کیا ہو‘ انگریز نے مگرریاست کشمیر کاہندوستان سے آزادرہنے کا فیصلہ‘ مان لیا تھا!۔
26جنوری 1950کوآئین ساز اسمبلی آف انڈیا کے جو ممبرز آئین میںاپنے زیرتسلط کشمیر کوانڈیا کا حصہ قراردے رہے تھے ‘وہ 45-46کے انتخابات کے تحت منتخب ہوئے تھے، جس میں ریاست کشمیر نے حصہ نہیں لیا تھا۔ایک ایسی اسمبلی میں‘ جس میں کسی کے متعلق کوئی قرارداد پاس کی جا رہی ہو‘ جس میں اُس کی نمائندگی نہیں ہوتی ‘ تووہ قرارداد کس طرح سے آئینی قرار دی جاسکتی ہے؟ ایسی آئین سازی پر حق پرست اور متاثرہ لوگ سوال ضرور اٹھائیں گے۔انڈیا کی سرکارنے اپنے زیر تسلط کشمیر کو بغیر آزادانہ انتخابات کرائے اپنا حصہ قراردے کر پہلی غلطی کی۔دوسری بڑی غلطی انڈین سرکار نے اُس وقت کی جب 15اگست کو ہندوستان کی تقسیم کے بعد دنیا بھر کے سامنے یعنی کہ اقوام متحدہ جاکر ہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو ایک وعدہ کر کے مُکر گئے تھے۔یہ وعدہ کشمیر میں آزادانہ انتخابات کروانے کا تھا۔آج انڈیا کی سولہویں سرکار آگئی ‘ آزادانہ انتخابات مگر تاحال نہیں ہوئے ہیں۔اب جب تک کشمیری آزادانہ انتخابات میں حصہ لے کر انڈیا میں شمولیت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ نہیں کر لیتے ‘ دنیا کے سامنے ہندوستانی سرکار کو جواب دہ ہونا پڑے گا۔
آج ہندوستان میں سولہویں سرکار کی حکومت ہے۔سولہویں انڈین سرکارانتہاپسند آدمی کے طور پر پہچانے جانے والے‘نریندر مودی کی سرکار ہے۔ایک ایسے وزیراعظم کی سرکار‘ فوجی بندوق کے بل بوتے پر‘جو آزادی کی آوازاُٹھانے والے کشمیریوںکو دبانے میں ناکام ٹھہری ہے۔ایک ایسی دائیں بازو بی جے پی جماعت کی سرکار ‘ شدت پسند پالیسیوں کے ذریعے خطے کو’’مسائلستان‘‘ بنائے رکھنے کے سوا جس سے بھلائی کی اُمید بھی کیاہے ؟ ۔
کشمیر کا مسئلہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ناخوشگوار تعلقات کی سب سے بڑی وجہ ہے‘ اِن ناخوشگوار تعلقات کے سبب لڑائی پر عالمی اسلحہ ساز فیکٹریوں کی ٹھیکیدارلابیاںبڑی خوش ہیںکہ دو پڑوسی آپس میں لڑیں تو ہتھیار بکتے ہیں۔ شدت پسندمودی سرکاراِنہی لابیوں کے شکنجے میں ہے۔اِسی شدت پسند سرکار کی ہٹ دھرمی نے ‘پاکستان کو لبرل ریاست بنانے کا اعلان کرنے والے نواز شریف کی مثبت اور قابل قدرکوششیں ضائع کر دی ہیں۔لبرل ہندوستانی دانشوروں،عوامی طبقوں،صحافیوں اور وکلاء کواپنی سرکار کی اِس ہٹ دھرمی پہ سوال اٹھانا چاہئے‘ خطے کے دو ارب انسانوںکا مستقبل ‘جس کی قابل مذمت پالیسیوںکے سبب دائو پر لگا ہے ،کہ عذاب ِ ماضی کوبھول کر خراب حال سے نکلنے کا حل کشمیر میں آزادانہ انتخابات ‘ہے۔
بھلا وہ فوجی بندوق‘ اپنے جائز حق ِ آزادی کی آواز اٹھانے والے باضمیر و آزاد انسانوں کو پلٹ کر کچھ سوچنے پہ مجبور بھی کس طرح کرسکتی ہے‘ سرحد کی حفاظت کرنا جس کا کام ہوتاہے؟۔عوام کی رائے جمہوریت میں انتخابات کے ذریعے جانی جاتی ہے۔کشمیری بھی پڑھے لکھے ہیں۔سوال اٹھاتے ہیں ‘ سرحد کی حفاظت آپ کا حق ہے ، ہم شہریوںکے حقوق پر جبر ِ مسلسل نہیں۔انتخابات ہونے دیجئے ۔آزادانہ انتخابات کروادیجئے۔تاریخ ایسے جبر کو یوم سیاہ کے طور پر یاد رکھتی ہے!۔