اتحاد ویکجہتی ناگریز
عیشتہ الراضیہ
ہرسال 26 جنوری کو بھارت یوم سیاہ مناتا ہے جس کی مخالفت میں وادی جموں وکشمیر میں اسی دن یوم سیاہ منایا جاتا ہے۔کشمیری رہنما اس دن مکمل طور پر شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کرتے ہیں۔ چیئرمین جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ محمد یٰسین ملک کا کہنا ہے کہ بھارت نے کشمیریوں سے ان کا جمہوری حق چھینا ہے اور ہمارا کوئی حق نہیں بنتا کہ ہم جموں کشمیرمیں بھارت کا یوم جمہوریہ منائیں۔
کشمیر برصغیر پاک وہند کے شمال مغرب میں واقع ایک ریاست ہے جس کا کل رقبہ تقریباً 69547 مربع میل ہے ۔1947ء کے بعد ریاست جموںو کشمیر دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔اس وقت بھارت 39102 مربع میل پر قابض ہے جوکہ مقبوضہ کشمیرکہلاتا ہے۔ اس کا دارالحکومت سری نگرہے۔ بقیہ حصہ آزاد کشمیرکہلاتا ہے جس کا رقبہ تقریباً 25 ہزار مربع میل ہے۔ 1846ء میں انگریزوں نے ریاست جموں وکشمیر کو 75 لاکھ روپے کے عوض ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت کر دیا تھا۔ تقسیم ہند کے وقت انگریزوں نے جو تقسیم کا فارمولا پیش کیا تھا اس کے مطابق آزاد ریاستیں اپنی مرضی سے کسی بھی ملک سے الحاق کرسکتی ہیں بشرطیکہ وہاں ان ممالک کی طرح عوام کی اکثریت ہو یعنی پاکستان سے الحاق کرنے والی ریاستوں میں ضروری ہے کہ مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو۔کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور وہاں کے لوگ ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے تھے ۔ مگرہندو مہاراجہ نے 26اکتوبر 1947کو رات کے اندھیرے میں وادی کا الحاق بھارت کے ساتھ کردیا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت میں جنگ کا آغاز ہوگیا۔ جنگ چھڑ جانے کے بعد بھارت اپنی پسپائی دیکھ کر یہ مسئلہ سلامتی کونسل لے گیا۔ سلامتی کونسل کی منظورشدہ قراردادوں میں بھارت اور پاکستان کو کشمیر سے اپنی اپنی افواج نکالنے اور وادی میں رائے شماری کروانے کے لئے کہا گیااور اس وقت کے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہرلال نہرو نے رائے شماری کرانے کا وعدہ بھی کیا مگر بعدازاں اس وعدے سے مکر گئے۔کشمیرکا تنازعہ اب تک جاری ہے کیونکہ ستر سال بیت گئے مگر بھارتی حکومت نے کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت نہیں دیا۔ پاکستان اور بھارت اس مسئلہ کو پرامن طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں تاہم ان سات دہائیوں میں ہم نے دیکھا کہ اس سلسلے میں بھارت کی طرف سے کوئی سنجیدہ پیش رفت نہیں ہوئی۔ پاکستان ہمیشہ سے ہندوستان کو مذاکرات کی دعوت دیتا ہے مگریہ مذاکرات ہر دفعہ بے سود نکلتے ہیں۔ بھارت کا یہ کہنا ہے کہ کشمیربھارت کا اٹوٹ انگ ہے جبکہ پاکستان کا مؤقف ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور بھارت نے اس رگ جاں پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے۔ کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو غیر مؤثر بنانے کے لئے بھارت وادی میں ہندوآباد کاری میں مصروف ہے۔ ریٹائرڈ بھارتی سپاہیوں کو وہاں کی شہریت دی جا رہی ہے اور سری نگرمیں انہیں مستقل طور پر آباد کرنے کی غرض سے سینک کالونی کے نام سے مختلف کالونیاں بنائی جارہی ہیں۔ مگرکشمیرکے لوگ ان ہتھکنڈوں سے نہ گھبرائے ہیں اورنہ ہی اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹتے نظرآتے ہیں۔ 2016 کے دوران بھارتی مظالم سے تقریباً 117 کشمیری شہید جبکہ 16700زخمی ہوئے ۔اسی طرح 2017میں تقریباً 291 کشمیری جوان، عورتیں اور بچے شہید ہوئے۔ بھارتی فوج کے ظلم اور بربریت سے ہرسال سینکڑوں لوگ بینائی سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ بے شمار ایسے نوجوان جنہیں فوجی سپاہی گرفتار کرکے ساتھ لے جاتے ہیں گمشدہ ہیں ۔اس بات کا ثبوت وہاں سینکڑوں گم نام قبریں ہیں۔ عظم و حوصلے کا یہ عالم ہے کہ تشدد، لاٹھی چارج اور فائرنگ سے ہونے والے معذور کشمیری ہمت نہیں ہارتے اور بھارتی ظلم سے آزادی کے لئے جان کی بازی لگانے کے لئے تیار رہتے ہیں ۔
عوام کی مرضی کے خلاف انہیں غلام بنانے کا حق کوئی آئین اورقانون نہیں دیتا۔ طاقت کے زورپر عوام کو محکوم بنانے کی روش ختم ہونی چاہئے۔