اورکزئی میں امریکی ڈرون حملہ تعلقات خراب ہونگے، کوئی بھی قدم اٹھا سکتے ہیں: پاکستان۔ یہ یکطرفہ اقدامات دہشتگردی کیخلاف جنگ میں باہمی تعاون کیخلاف ہیں۔ انٹیلی جنس شیئرنگ کی جائے خود کارروائی کرینگے: ترجمان دفتر خارجہ۔ ڈرون حملے خود مختاری کیلئے چیلنج ہیں۔ وزیر خارجہ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان اور امریکہ اتحادی ہیں۔ مشرف کے دور میں انہوں نے دبائو میں آ کر امریکہ نے ڈرون حملوں پر خاموشی کی پالیسی اختیار کی۔ مگر اب امریکہ بھارت کو اپنا سٹرٹیجک قرار دینا شروع کر دیا ہے اور پاکستان سے ڈو مور کے مطالبات کی بھر مار برقرار رکھے ہوئے ہے، ان حالات میں بھی پاکستان نے دہشتگردوں کیخلاف اپنی جنگ جاری رکھی اور ملک بھر میں کومبنگ آپریشن اور افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں پے در پے کئی آپریشن کر کے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ پاکستانی سکیورٹی فورسز کی بھر پور کارروائی کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم ہو چکے ہیں اور زندہ بچ جانیوالے دہشتگرد افغانستان جا کر چھپے بیٹھے ہیں۔ ان بچے کھچے دہشتگردوں کی آمد و رفت روکنے کیلئے پاکستان نے افغانستان سے ملنے والی سرحد پر باڑ لگانا وہاں حفاظتی چوکیاں قائم کرنا شروع کر دی ہیں جس پر افغان حکومت بلا جواز منفی پراپیگنڈا کر رہی ہے۔ حالانکہ سرحدوں کو محفوظ بنانے کیلئے اپنے علاقے میں حفاظتی باڑ لگانا پاکستان کا حق ہے مگر افغانستان میں موجود بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نہیں چاہتی کہ ایسا ہو کیونکہ اس طرح وہ اپنے ایجنٹ اور دہشتگرد پاکستان داخل نہیں کر پائے گی۔ ویسے بھی اس وقت لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں جنہیں واپس وطن جانے کیلئے حکومت پاکستان نے فروری تک ڈیڈ لائن دے رکھی ہے، عام طور پر دہشتگرد سرحد پار کر کے اپنے ہم وطن مہاجرین میں گھل مل جاتے ہیں، جس کا پتہ لگانا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ اب امریکہ نے شمالی وزیرستان کے سرحدی علاقے سپن ٹل ڈپہ ماموزئی میں ڈرون حملہ کر کے جن مبینہ دہشتگردوں کی موت کا اعلان کیا ہے۔ اس پر آئی ایس پی آر کے ترجمان نے ڈرون حملے کے نتیجے میں کسی دہشتگرد تنظیم کے ٹھکانے کے تباہ ہونے کی تردید کرتے ہوئے بیان جاری کیا ہے کہ اس حملے میں بے گناہ افغان مہاجر کیمپ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں کسی دہشتگرد تنظیم کا کوئی محفوظ ٹھکانا باقی نہیں اب امریکہ بھی بھارت اور افغانستان کے جھوٹے پراپیگنڈے سے باہر نکل کر حقائق کا جائزہ لے اور پاکستان پر الزام تراشی بند کرے۔ کیونکہ پاکستان میں کسی دہشتگرد کا موجودہ حالات میں افغانستان کے سرحدی علاقے تک پہنچنا نا ممکن ہے۔ ایسے میں اگر امریکہ اپنے اتحادی پاکستان کو اعتماد میں لیکر ساتھ ملا کر یہ کارروائی کرتا تو حالات اتنے تلخ نہیں ہوتے۔ ایسے ہی تلخ معاملات سے بچنے کیلئے پاکستان افغانستان سے ملحقہ بارڈر پر حفاظتی باڑ لگا رہا ہے تو اس پر افغانستان کا شور مچانا بے معنی ہے۔ کیونکہ ایسے حفاظتی اقدامات کا مقصد یہی ہے کہ افغانستان میں چھپے دہشتگرد سرحد پار کر کے پاکستانی سرحد ی علاقے میں داخل نہ ہوں۔ حکومت پاکستان کا امریکی ڈرون حملہ پر صرف سخت احتجاج کافی نہیں، پارلیمنٹ میں منظور شدہ قرار داد کے مطابق اب ڈرون طیارے گرانے کا آپشن بھی استعمال کیا جائے جس سے اگر حالات زیادہ خراب ہونے کا خدشہ ہے تو پھر امریکہ کے ساتھ مل بیٹھ کر ایسے معاملات پر دو ٹوک بات چیت کی جائے تاکہ دوبارہ ایسے حملوں کا اعادہ نہ ہو۔
عاشقانِ عمران خاں کی مایوسی کے عکاس ضمنی انتخابات کے نتائج
Apr 23, 2024