افکار و نظریات اقبال پر پاکستان میں تحقیقاتی کام کی ضرورت ہے
طاہر منیر طاہر
شاعر مشرق، حکیم الامت، حضرت علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کی شاعری ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ اس مشعل کو بجھنے نہ دیا جائے بلکہ علامہ اقبال کے افکار و نظریات کو مزید بہتر انداز میں نسل نو تک پہنچایا جائے جس سے ہمارا پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا بہت موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ علامہ محمد اقبال کی شاعری کا زیادہ تر حصہ فارسی پر مبنی ہے۔ جسے ہر کسی کے لئے پڑھنا اور سمجھنا آسان نہیں ہے۔ لہٰذا ہمارا میڈیا اگر علامہ اقبال کے فارسی و اردو اشعار سلیس اردو کے ساتھ دنیا شروع کر دیں تو یہ ادب کی بڑی خدمت ہو گی اور علامہ اقبال کی پُر اثر شاعری سے عام لوگوں کو بھی متفید ہونے کا موقع ملے گا۔ ان خیالات کا اظہار ماہر اقبالیات ریٹائرڈ بریگیڈئر ڈاکٹر وحیدالزماں طارق نے گزشتہ دنوں دوبئی کے ایک ہوٹل میں ایک تقریب کے دوران کیا۔ تقریب کا اہتمام خاص طور پر علامہ اقبال کے افکار اور نظریات کو اجاگر کرانے کے لئے کیا گیا تھا۔پاکستان ڈائنامک فورم کا زیر اہتمام ہونے والی اس تقریب کا انتظام مخدوم رئیس قریشی۔ شیخ ایم پرویز اور طاہر منیر طاہر نے کیا تھا جس میں امارات بھر سے علم و ادب سے دل چسپی رکھنے والے خواتین و حضرات نے شرکت کی۔اس ادبی تقریب میں مسز عامرہ وحید، فرزانہ کوثر، بشری عبیر، ڈاکٹر ثروت زہرہ، پیر محمد کیلاش، خلیل الرحمٰن بونیری، ملک محمد یونس، عابد قریشی، حافظ زاہد علی، عبدالرحمٰن رضا، سجاد اکبر خان، سید مدثر خوشنود، طارق ندیم، سلیمان جاذب، اکبر جمیل باجوہ، عدیل جاوید، مصطفٰی شریف اور دیگر متعدد لوگوں نے شرکت کی۔ تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبولؐ سے ہوا۔ شیخ ایم پرویز نے پروگرام کی غرض و غایت بیان کی اور مصروف شاعرہ ڈاکٹر ثروت زہرہ کو اپنا کلام سنانے کی دعوت دی۔ڈاکٹر ثروت زہرہ نے انتہائی خوش بیانی سے اپنا کلام سنایا اور حاضرین سے داد و تحسین حاصل کی۔ بعدازاں ڈاکٹر وحیدالزماں طارق کو خطاب کی دعوت دی گئی۔ انہوں نے انتہائی تفصیل علامہ محمد اقبال کی پیدائش سے لے کر وفات تک کے واقعات کو تفصیل سے بیان کیا جسے خاضرین نے بے حد توجہ اور ذوق و شوق سے سنا۔ ڈاکٹر وحیدالزماں طارق کو کلام اقبال سے گہرا شخف ہے جس پر وہ عبور بھی رکھتے ہیں۔انہوں نے علامہ اقبال کو صحیح انداز میں سمجھنے کے لئے فارسی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے۔ ڈاکٹر وحیدالزماں طارق نے شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال کے شکوہ جواب شکوہ پر سیر حاصل تقریر کی اور لوگوں کو شکوہ جواب شکوہ کی حقیقت سے آگاہ کیا۔انہوں نے کہا کہ حضرت علامہ اقبال ایک راسخ العقیدہ اور سچے مسلمان تھے۔ وہ ایک صوفی انسان تھے، ان کی شاعری قرآن آیات پر مبنی ہے۔ ان کے اشعار اس قدر قیمتی ہیں کہ ان کا مول نہیں چکایا جا سکتا۔ علامہ اقبال کی قدرغیر ممالک کے لوگوں کو ہے جو آج بھی ان کے کلام پر تحقیق کر رہے ہیں جبکہ بے شمار لوگ علامہ اقبال کی شاعری پر ڈاکٹریٹ کر چکے ہیں شاعر مشرق کی شاعری کا ترجمہ دنیا کی دیگر متعدد زبانوں میں بھی ہو چکا ہے جو ہمارے لئے باعث فخر ہے۔ علامہ اقبال کے افکار اور نظریات کے بارے آج کی نوجوان نسل کو بتانے کی بھی اشد ضرورت ہے جس کے لئے سنجیدہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر وحیدالزماں طارق نے کہا کہ محمد اقبال 9 نومبر 1877ء میں پیدا ہوئے جبکہ 21 اپریل 1938ء کو 61 سال کی عمر میں پاکستان بننے کے 9 سال قبل ہی انتقال کر گئے۔ پاکستان کا خواب حضرت علامہ اقبال نے دیکھا تھا جس کی جھلک شعروں کی صورت میں ان کی شاعری میں ملتی ہے۔انہوں نے اس مدت امت مسلمہ کے بھی مسائل کی نشاندہی کی تھی وہ آج پوری ہو رہی ہیں۔ علامہ اقبال ایک ولی اللہ بھی تھے جو قدرت کی حقیقتوں کے بے حد قریب تھے۔ علامہ اقبال نے امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا حل بھی اپنے اشعار ہی میں بتا دیا تھا جسے ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا سرکاری سطح پر نظریات و افکار اقبال کو اجاگر کرنے کی مزید ضرورت ہے تاکہ نسل نو کا قبلہ درست کیا جا سکے۔ تقریب کے اختتام پر مخدوم رئیس قریشی، شیخ ایم پرویز اور طاہر منیر طاہر نے علامہ اقبال کے موضوع پر جامع تقریر کرنے اور اقبالیات کے بارے آگاہی پر ڈاکٹر وحیدالزماں طارق کا شکریہ ادا کیا اورا نہیں بے حد خراج تحیسن پیش کیا۔ اردو ادب خصوصاً شاعر مشرق حضرت علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال پر علمی دسترس رکھنے پر انہیں اعزازی شیلڈ بھی پیش کی گئی جس پر ڈاکٹر وحیدالزماں طارق نے خاضرین اور منتظمین کا شکریہ بھی ادا کیا۔ تقریب کے آخر میں تمام مہمانوں کی تواضع پر تکلف ڈنر سے کی گئی۔