بدھ کے روز کرم ایجنسی میں امریکی ڈرون حملہ کے بعد پاکستان نے اس حملہ کی مذمت کی ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس حملہ پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ اس طرح کے حملوں سے دونوں ملکوں کے تعلقات متاثر ہوں گے۔ امریکہ کے پاس اگر کوئی انٹیلی جنس رپورٹ ہے تو پاکستان کو فراہم کرے پاکستان خود اس رپورٹ پر کارروائی کرے گا۔ پاکستان کے ردعمل کے بعد جمعرات کو امریکی سفارت خانہ کے ترجمان نے صرف ایک سطری ردعمل دیا ہے جس میں کہا گیا ہے ”امریکہ نے بدھ کے روز کسی افغان مہاجر کیمپ پر حملہ نہیں کیا“ پاکستان کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ یہ حملہ ایک مہاجر کیمپ پر ہوا۔ ترجمان سے جب راقم نے استفسار کیا کہ کیا امریکی ردعمل صرف ایک سطر پر مشتمل ہے تو ترجمان نے کہا کہ ”ہمارا ردعمل صرف اتنا ہی ہے“ اس ردعمل کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ نے افغان مہاجر کیمپ پر حملہ نہیں کیا بلکہ اس نے حقانی نیٹ ورک کے ٹھکانے پر حملہ کیا ہے۔ اے ایف پی نے اپنی خبر میں بتایا ہے کہ یہ حملہ پاکستان کی سرحد کے پچاس کلو میٹر اندر گا¶ں ماموں زئی میں کیا گیا جو کرم ایجنسی میں واقع ہے۔ اے ایف پی نے اس ڈرون حملے کے بارے میں اپنی خبر میں یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو ایس ایچ سی آر نے واضح کیا ہے کہ کرم ایجنسی میں کسی بھی قبائلی علاقے میں افغان مہاجرین کا کوئی کیمپ نہیں ہے۔ اس حملہ کے بعد امریکی ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ وہ پاکستان میں موجود انتہا پسندوں کے ٹھکانوں پر حملے کر رہا ہے۔ اس طرح کے حملے کی ایک عرصہ سے توقع کی جا رہی تھی کیونکہ امریکی صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے کئی افسر ایک عرصہ سے کبھی ڈھکے چھپے الفاظ میں اور کبھی کھلی دھمکی دے رہے تھے کہ اگر پاکستان نے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کیخلاف خود کوئی کارروائی نہیں کی تو امریکہ یکطرفہ کارروائی کرے گا۔ کرم ایجنسی میں ڈرون حملہ ایک طرفہ کارروائی ہے۔
دہشت گردوں کیخلاف جنگ میں جب سے پاکستان امریکہ کا پارٹنر بنا ہے امریکہ درجنوں یا شاید اس سے بھی زیادہ مرتبہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے کر چکا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں یہ حملے بڑے تواتر سے ہوتے رہے ہیں۔ بعض باخبر ذرائع اس وقت دعویٰ کرتے تھے کہ اس وقت کی حکومت اور امریکہ کے درمیان ایک خاموش مفاہمت ہے کہ ان علاقوں میں جہاں تک پاکستان کے لئے رسائی ممکن نہیں ہے وہاں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو امریکہ نشانہ بنا سکتا ہے۔ آج سے دس برس پہلے امریکی ڈرون حملے ایک معمول بن گئے تھے۔ ان ڈرون حملوں کیخلاف سخت ردعمل کا اظہار بھی کیا جاتا رہا ‘ کیونکہ ان حملوں میں بے گناہ لوگ بھی مارے جاتے رہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے تو ڈرون حملوں کے خلاف ایک باقاعدہ احتجاجی تحریک بھی چلائی تھی۔ اس احتجاجی تحریک میں امریکہ کی انسانی حقوق کی بعض تنظیموں کے کارکنوں نے شرکت کی تھی۔ انسانی حقوق کے یہ فعال ارکان اسلام آباد آئے تھے اور انہیں قبائلی علاقہ تک لے جایا گیا تھا۔ اس ردعمل کے بعد ڈرون حملوں کی تعداد میں قدرے کمی آئی تھی لیکن یہ حملے مکمل طور پر بند نہیں ہوئے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد کچھ عرصہ تک ڈرون حملوں کا سلسلہ بند رہا ‘ لیکن اب یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ڈرون حملوں کا ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے۔ اب اگر ڈرون حملے ہوئے تو ان سے پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی اور بگاڑ پیدا ہو گا۔ یہ ڈرون حملے پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی اور غلط فہمیوں کے پس منظر میں ہوں گے۔ صدر ٹرمپ نے اس ماہ کے آغاز میں جو انتہائی متنازعہ ٹویٹ جاری کیا تھا اس میں انہوں نے پاکستان پر کھلا الزام لگایا کہ وہ امریکہ کے ساتھ ڈبل گیم کھیل کر پیسے اینٹھ رہا ہے۔ اس ٹویٹ پر پاکستان نے سخت ردعمل ظاہر کیا تھا۔ اس ٹویٹ سے دونوں ملکوں کے تعلقات پر مرتب ہونے والے اثرات کی شدت کو کم کرنے کے لئے پس پردہ سفارتی کوششیں بھی ہوئیں۔ کرم ایجنسی میں ڈرون حملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ ابھی شاید مزید ڈرون حملے کرے گا اور یہ تاثر دے گاکہ چونکہ پاکستان انتہا پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتا اس لئے امریکہ کو خود ایکشن لینا پڑ رہا ہے۔ اس پالیسی سے پاک امریکہ تعلقات پہلے بھی نازک دور سے گزر رہے ہیں مزید کشیدہ ہوں گے‘ جو دونوں ملکوں کے مفاد کے خلاف ہیں۔
پاکستان کی یہ تجویز بہت مناسب ہے کہ اگر امریکہ کے پاس کوئی ٹھوس انٹیلی جنس رپورٹ موجود ہے تو پاکستان کے ساتھ شیئر کرے‘ پاکستان خود ایسے ٹھکانوں کیخلاف حملہ کرے گا جہاں کوئی دہشت گرد پناہ لئے ہوئے ہیں۔ امریکہ اگر اس کو نظر انداز کر کے ڈرون حملے کرے گا تو کشیدگی بڑھ جائے گی۔ پاکستان کی طرف سے ڈرون گرانے کی صورت میں حالات بگڑیں گے۔ پاکستان اور امریکہ ستر سال تک پارٹنر رہے ہیں۔ افغانستان کی جنگ آزادی میں دونوں ملکوں کی شراکت داری بہت موثر رہی ہے۔ نائن الیون کے بعد بھی پاکستان اور امریکہ کے درمیان دہشت گردی کیخلاف جنگ میں تعاون موثر رہا ہے۔ اگر اس تعاون کو نقصان پہنچا تو اس سے پورے خطے میں حالات خراب ہوں گے۔ پاکستان اس صورت میں یہ کہنے میں حق بجانب ہو گا کہ امریکہ اب جنوبی ایشیا کے بارے میں نئی پالیسی پر اپنے نئے حلیفوں خاص طور پر بھارت کی باتوں میں آ گیا ہے۔ یہ بات مزید خرابی کا باعث ہو گی۔
٭٭٭٭٭