جمہوریت اور نازیبا رویے
17 جنوری کو لاہور مال روڈ پر بظاہر تو 17 جون کو ماڈل ٹاؤن میں پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد کے انصاف کے حصول کی خاطر حکومت پنجاب کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے کا پروگرام بنایا گیا تھا مگر جلسہ میں جو تقاریر کی گئی تھیں ان سب کا مطمع نظر شریف برادران کو اقتدار سے الگ کرنا تھا جیسے کہ پہلے دو سال تک گو نواز گو کی تحریک چلائی گئی جب اندرون ملک ناکامی ہوئی تو بیرون ملک سے ان کے خاندان کے خلاف ان کی بنائی گئی جائیداد یا گھر وغیرہ کو دنیا میں ظاہر کیا گیا جسے متاثرہ فریق نے اپنے جائز ذرائع سے بنانے کا جواز پیش کرنے کا اعلان کیا۔ بنابرین مقدمہ عدالت میں لے جایا گیا جہاں انہیں کرپشن کی بجائے اقامہ کو وجہ بنا کر گو نواز گو کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے اس پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کے بعد سے ملک میں جو سیاسی‘ اقتصادی اور مذہبی افراتفری نے سر اٹھایا ہے تو اب پھر الیکشن 2013 ء سے قبل کی طرح غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہوتی جا رہی ہے جو کہ وطن عزیزکے غریب اور متوسط طبقہ کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہے کیونکہ ملک میں جو بہتری کی امید بندھی تھی اسے دوبارہ دنگا فساد کی دلدل میں دھکیلا جا رہا ہے جو پاکستان کے استحکام کیلئے تباہ کن ہے۔ علاوہ ازیں جلسہ میں طاہر القادری بار بار اعلان کرتے رہے کہ اگر میں چاہوں تو میرے کارکن کل ہی سلطنت شریفیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور ان کی بوٹی بوٹی کردیں گے۔ شیخ رشید نے پارلیمنٹ‘ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ وغیرہ پر لعنتوں کی بوچھاڑ کر دی اور اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔نیز ساتھ ہی طاہرالقادری کو مشورہ دیا کہ یہ لوگ محض تقریروں سے نہیں جائیں گے ان کو لاٹھی اور نیزے سے بھگانا پڑے گا۔ اسی طرح عمران خان اور زرداری نے بھی شریف برادران کو نشانہ بنایا اور حکومت ختم کرنے کی دھمکی دی۔ عمران خان نے بھی پارلیمنٹ پرلعنت بھیجنے کی حمایت کر دی۔
قارئین کرا م میں سمجھتا ہوں کہ نہ صرف میں اکیلا بلکہ میرے جیسے اور بہت سے محب وطن غیر جانبدار خیر خواہ بھی میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ اس وقت ملک میں موجودہ تمام سیاسی پارٹیاں معہ مذہبی گروپ جو ہیں وہ سب شریف برادران کے خلاف جلسہ میں حاضر تھے اور ان سب کا کہنا تھا کہ ان دونوں بھائیوں نے پنجاب اور پاکستان پر قبضہ جمایا ہوا ہے لہٰذا ہم ان دونوں سے ملک کو آزاد کرائیں گے۔ یہاںسوال پیدا ہوتا ہے کہ جب گونواز گو بھی ہو گیا بلکہ ان پر مقدمات چل رہے ہیں اسی طرح شہبازشریف پر بھی مقدمے بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ادھر الیکشن کی تیاریاں بھی شروع ہو چکی ہیں تو پھر ملک میں جہاں پہلے ہی حالات ابتری کی جانب جا رہے ہیں وہاں انہیں مزید خرابی میں ڈالنا کیا اسے دانشمندی کہیں یا ملک دشمنی سمجھیں جبکہ دشمن آئے روز بارڈر پر گولاباری کررہا ہے۔ کوئٹہ اور کراچی میں فوج اور پولیس کے سپاہیوں پر فائرنگ کی جا رہی ہے۔ گاڑیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو اس طرح ملک میں کس طرح امن قائم ہو گا۔ اس لئے ضرورت حقائق کو سمجھنے اور جاننے کی ہے۔
مزید یہ کہ یہ جو حکومت ہٹانے اور لاٹھیاں اٹھانے کی باتیں ہو رہی ہیں یہاں سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیا شریف برادران نے پنجاب یا پاکستان پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے یا عوامی ووٹ کی طاقت سے حکومت میں آئے ہیں۔ کیا وہ مسلم لیگ کے حامی نہیں ہیں۔ کیا 30 اپریل 1930 ء کو علامہ اقبال نے مسلم لیگ کی صدارت کرتے ہوئے الہ آباد میں مسلمانوں کے ہندوستان میں اکثریتی علاقوں پر مشتمل اسلامی ریاست بنانے کا تصور پیش نہیں کیا تھا۔ کیا علامہ اقبال لاہور میں نہیں رہتے تھے۔ کیا 23 مارچ 1940 ء کو لاہور میں مسلم لیگ کا جلسہ نہیں ہوا تھا۔ کیا اس جلسہ میں قائداعظم موجود نہیں تھے۔ کیا اس جلسہ میں منظور ہونے والی قرارداد لاہور وطن عزیز پاکستان کے قیام کا باعث نہیں بنی تھی۔ کیا شریف برادران محب وطن نہیں ہیں؟ کیا چین سے گوادر اور پشاور سے کراچی تک قومی شاہرائیں وہ اپنی ذات کے لئے بنا رہے ہیں یا ملک کی عظمت کی خاطر بن رہی ہیں۔ کیا نوازشریف نے ایٹمی دھماکے پاکستان کو مضبوط کرنے کے لئے کئے تھے یا کمزور کرنے کے لئے۔ اگر ان کی کارکردگی پاکستان کو طاقتور بنانے کی ہے تو پھر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیاست میں مخالفت کرتے وقت اس حد تک جانے کی ضرورت ہے۔ ذرا سوچیئے۔