جب بھارت نے کشمیر پر قبضہ کیا (1 )
یوم یکجہتی کشمیر کیوں منایا جاتا ہے اورا س کی اہمیت کیا ہے یہ جاننے کے لئے تحریک آزادی کشمیر کے پس منظر کا جائزہ لینا ہو گا۔ زیادہ تر یہی سمجھا جاتا ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے بعد جب بھارت نے کشمیر پر قبضہ کیا تب کشمیری عوام نے تحریک آزادی شروع کی۔ جبکہ دیکھا جائے تو یہ تحریک اسی روز سے شروع ہو گئی تھی جب انگریزوں نے گلاب سنگھ کے ساتھ ساز باز کر کے کشمیر کا سودا کر دیا تھا۔جو بعد میں بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کا باعث بنا۔ 13جولائی 1931ء کو سری نگر جیل میں کشمیریوں پر وحشیانہ تشدد اور فائرنگ کے نتیجے میں 22مسلمان شہید اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ آل انڈیا مسلم لیگ جو کہ انگریزوں سے بھارت کو آزادی دلانے کی جدوجہد میں مصروف عمل تھی وہ کشمیری مسلمانوں پر ہونے والے مظالم سے بے خبر نہیں تھی۔ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے ـ"کشمیر کمیٹی"کا قیام آل انڈیا مسلم لیگ کی بدولت ہی عمل میں آیا تھا۔اور شاعر مشرق علامہ اقبال کوا س کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ کشمیری عوام کبھی بھی مسلح جدوجہد کے ذریعے کشمیر آزاد کرانے کے حق میں نہیں تھے ۔لیکن پے درپے جھوٹ ، وعدہ خلافی ،ڈوگرہ راج کے مظالم اور مختلف استحصالی حربوں نے کشمیری عوام کو سیاسی میدان کے ساتھ ساتھ مسلح جدوجہد کرنے پر مجبور کیا1946ء میں جب قائد اعظم نے مسلم کانفرنس کی دعوت پر سرینگر کا دورہ کیا جہاں قائد کی دوراندیش نگاہوں نے سیاسی ، دفاعی، اقتصادی اور جغرافیائی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کشمیر کو پاکستان کی ـ" شہ رگ"قرار دیا۔ مسلم کانفرنس جو کہ کشمیری مسلمانوں کی نمائندگی کر رہی تھی۔ اس نے 19جولائی1947ء کو سردار ابراہیم خان کے گھر سری نگر میں باقاعدہ طور پر "قرارداد الحاق پاکستان"منظور کی۔ لیکن جب کشمیریوں کے فیصلے کو نظر انداز کیا گیا تو مولانا فضل الٰہی وزیر آباد کی قیادت میں 23اگست1947کو مسلح جدوجہد کا باقاعدہ آغاز کیا۔تقریباً ایک سال مسلسل جہاد کے بعد موجودہ آزاد کشمیر آزاد ہوا ۔بھارت سے جب کچھ نا بن پڑا تو پنڈت جواہر لال نہرو اقوام متحدہ پہنچ گئے اور بین الاقوامی برادری سے وعدہ کیا کہ وہ ریاست میں رائے شماری کے ذریعے ریاست کے مستقبل کا فیصلہ مقامی عوام کی خواہشات کے مطابق کریں گے۔یہ تھی وہ بنیاد جس نے کشمیری عوام کو مسلسل برسر پیکار رکھا ہوا ہے۔ کیونکہ سلامتی کونسل کی ان قراردادوں میں کشمیریوں سے وعدہ کیا گیا تھاکہ انہیں رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے گا۔لیکن اپنے وعدہ کو پورا کرنے کے بجائے ہندوستان نے مسلم تشخص کو ختم کرنے کے لئے تقسیم کے وقت ساڑھے تین لاکھ کشمیریوں کو جموں میں شہید کیا گیا۔25فروری کو کانگریس نے بغیر کسی الیکشن کے شیخ عبداللہ کو سری نگر کے تخت پر مسلط کیا تو 25فروری1975ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان اور آزاد و مقبوضہ کشمیر میں بروز جمعۃ المبارک مکمل ہڑتال کی کال دی۔زبردست اور تاریخی ہڑتا ل ہوئی اور سری نگر کے لال چوک میں کشمیری عوام نے ایک مرتبہ پھر سبز ہلالی پرچم لہرایا۔ کشمیر کی آزادی کی کاز جسے بھر پور پذیرائی مل رہی تھی پاکستان کے ساتھ بھارت کے ہونے والے کئی مجاہدوں نے بہت نقصان پہنچایاجس میں پانی کے مجاہدے، اور خاص طور پربنگلہ دیش میں پاکستانی افواج کا ہتھیار ڈالنا اور اس ضمن میں شملہ معاہدہ طے پانا۔جس کی شق میں کشمیریوں کی مدد کرنے سے روکنے جیسی شرائط عاید کی گئی تھیں۔
پاکستان جو کہ پہلے کشمیری مسلمانوں کے ساتھ کھڑادکھائی دیتا تھا ۔اب اس کے طرز عمل میں بہت فرق پڑ چکا تھا۔اس کمی کو محسوس کرتے ہوئے مختلف تنظیمیں جو الگ الگ کشمیر کی آزادی کے لئے جد وجہد کر رہی تھیں مسلم متحدہ محاذ کے نام سے اکھٹی ہو ئیں اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ الیکشن جیت کر ہندوستان کے ساتھ الحاق کی اس قراردار کو ریا ستی اسمبلی میں نا منظور قرار دیں گے۔ حر یت کا نفرنس کے سر براہ سید علی گیلانی اور جہاد کو نسل کے صدر سید صلا ح الد ین نے بھی ان انتخابات میں حصہ لیا۔ 23مارچ 1987ء کو ریا ستی اسمبلی کے انتخابات میں مسلم متحدہ محاذ کی واضح اور فیصلہ کن فتح کو دھو نس اور دھا ند لی کے ذریعے شکست میں تبدیل کر کے ہندوستان نے کشمیر ی عوام کی پر امن ذریعے سے تبدیلی لا نے کی خواہش کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا۔ یہی وہ نقطہ آ غاز تھاکہ جمہو ری طر یقے سے جدو جہد کر نے والے اور انتخابات میں حصہ لینے والی قیادت مسلح جدوجہد شروع کر نے پر مجبور ہو گئی ۔ 1989ء میں جب کشمیر ی حر یت پسندوں نے ہندوستان کی ہٹ د ھرمی اور اقوام متحدہ کی بے حسی سے مجبور ہو کر مسلح جدو جہد کا فیصلہ کیا تو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ آ نے والے بر سوں میں کشمیر ی عوام اس طرح ان کے ساتھ کھڑے ہو ں گے کہ ہندوستان نواز سیا سی قوتوں کو اپنا و جود پر قرار رکھنا بھی مشکل ہو جا ئے گا ۔شیخ عبداللہ کو کہ کبھی کشمیریوں کے دلوں پر راج کر تے تھے اور شیر کشمیر کا لقب پا چکے تھے وہی شیر کشمیر اندر اگاندھی سے ایک محاہدہ جسے ’’اندر اعبداللہ ایکارڈ‘‘ کہا جاتا ہے کے بعد ’’غدارکشمیر ‘‘ قرار پاے۔ دہلی کی جیل میں ’’شہید کشمیر‘‘ مقبول بٹ نے اپنے خون سے جس انقلاب کی بنیاد رکھی۔ اسے کشمیر اور پاکستان حریت پسندوں نے اپنے خون سے آج تک جاری ہے ۔