مکرمی !اولاد خدا کی بہت بڑی نعمت ہے۔ کوئی امیر ہو یا غریب ، اولاد تو ہر ایک کو پیاری ہوتی ہے۔ میرا چودہ سالہ بیٹا امیر حمزہ بالکل ٹھیک تھا اور قرآنِ پاک حفظ کر رہا تھا کہ اچانک اسے بخار رہنے لگا۔ پہلے پہل تو ہم نے اس طرف کوئی خاص توجہ نہ دی اور گھر میں پیراسیٹا مول وغیرہ دیتے رہے۔ لیکن جب طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو ہم اسے ایک مقامی ہسپتال لے گئے جہاں امیر حمزہ تقریباً تین ماہ زیرِ علا ج رہا لیکن بخار میں کوئی افاقہ نہ آیا۔ ہم سب گھر والے اس کے متعلق بہت فکر مند تھے ۔ پھرایک دن طبیعت زیادہ خراب ہونے پر ہم اسے سینار ہسپتال ، کوئٹہ، لے گئے۔ یہاں ڈاکٹروں نے امیر حمزہ کا معائنہ کرنے اور کچھ ٹیسٹ کروانے کے بعد خون کے کینسرکا شک ظاہر کیا ۔ یہ خبر تو ہم پر قیامت بن کر گزری۔ کوئٹہ کے ایک خدا ترس ڈاکٹر نے ہمیں شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال، لاہور، جانے کا مشور ہ دیااور بتایا کہ وہاں غریبوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔
یہ مارچ 2009تھا جب ہسپتال کے اندر واک ان کلینک میں معائنہ کے بعد امیر حمزہ کو بچوں کے کینسر کے ماہر ڈاکٹر کے ساتھ تاریخ دے دی۔ میں نے روتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ ہم غریبوں کے پاس تو علاج کے لئے پیسے نہیں ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمیں تسلی دی اورکہا کہ پریشانی کی ضرورت نہیں ہے ، اس ہسپتال میں امیر حمزہ کا علاج مفت ہوگا اور انشاءاللہ وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔
امیر حمزہ کا علاج شروع ہو گیا۔ بلاشبہ یہ ایک لمبا اور تھکا دینے والا سفر تھا۔ امیر حمزہ کے مختلف ٹیسٹ ہوئے اور پھر اسے کیمو تھراپی کے محتلف کورسز لگائے گئے۔ اس دوران اس کی طبیعت خراب ہوجاتی اور وہ مزید علاج نہ کروانے کی ضد کرتا تو ڈاکٹر اور ہسپتال کا عملہ اسے سمجھاتے کہ اس دواکو لگانے کا مقصد تمہاری زندگی بچاناہے۔ یہ وقتی تکلیف ہے ختم ہو جائے گی۔ وہ اسے طرح طرح کے کھلونے دیتے۔ ہسپتال ہی میں وہ بچوں سے مل کر کمپیوٹر گیمز کھیلتا۔ سب ڈاکٹر اور عملے کا ہر فرد اسے اس قدر پیار دیتا کہ وہ اپنی تکلیف بھول جاتا۔ کبھی کبھی تو وہ ضد کرتا کہ وہ گھر نہیں جائے گابلکہ ہسپتال میں ہی رہے گا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ امیر حمزہ اب بالکل ٹھیک ہے اور اس نے دوبارہ قرآن پاک حفظ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب ہم ہر مہینے اس کے کچھ ٹیسٹ کروانے ہسپتال آتے ہیں۔ امیر حمزہ کا تمام علاج جو لاکھوں کا بنتا ہے، شوکت خانم ہسپتال میں مفت ہوااور تمام ادویات بھی مفت دی گئیں۔ سوچتا ہو ں اگر یہ ہسپتال نہ ہوتا تو جانے امیر حمزہ کا کیا بنتا!
ہم غریبوں کے پاس تو دعاو¿ں کے سوا کچھ نہیں اور وہ ہم ہر وقت جناب عمران خان اور اس ہسپتال کے تمام عملے کے لئے کر رہے ہیں .
(احمد نور۔ کوئٹہ)
یہ مارچ 2009تھا جب ہسپتال کے اندر واک ان کلینک میں معائنہ کے بعد امیر حمزہ کو بچوں کے کینسر کے ماہر ڈاکٹر کے ساتھ تاریخ دے دی۔ میں نے روتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ ہم غریبوں کے پاس تو علاج کے لئے پیسے نہیں ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمیں تسلی دی اورکہا کہ پریشانی کی ضرورت نہیں ہے ، اس ہسپتال میں امیر حمزہ کا علاج مفت ہوگا اور انشاءاللہ وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔
امیر حمزہ کا علاج شروع ہو گیا۔ بلاشبہ یہ ایک لمبا اور تھکا دینے والا سفر تھا۔ امیر حمزہ کے مختلف ٹیسٹ ہوئے اور پھر اسے کیمو تھراپی کے محتلف کورسز لگائے گئے۔ اس دوران اس کی طبیعت خراب ہوجاتی اور وہ مزید علاج نہ کروانے کی ضد کرتا تو ڈاکٹر اور ہسپتال کا عملہ اسے سمجھاتے کہ اس دواکو لگانے کا مقصد تمہاری زندگی بچاناہے۔ یہ وقتی تکلیف ہے ختم ہو جائے گی۔ وہ اسے طرح طرح کے کھلونے دیتے۔ ہسپتال ہی میں وہ بچوں سے مل کر کمپیوٹر گیمز کھیلتا۔ سب ڈاکٹر اور عملے کا ہر فرد اسے اس قدر پیار دیتا کہ وہ اپنی تکلیف بھول جاتا۔ کبھی کبھی تو وہ ضد کرتا کہ وہ گھر نہیں جائے گابلکہ ہسپتال میں ہی رہے گا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ امیر حمزہ اب بالکل ٹھیک ہے اور اس نے دوبارہ قرآن پاک حفظ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب ہم ہر مہینے اس کے کچھ ٹیسٹ کروانے ہسپتال آتے ہیں۔ امیر حمزہ کا تمام علاج جو لاکھوں کا بنتا ہے، شوکت خانم ہسپتال میں مفت ہوااور تمام ادویات بھی مفت دی گئیں۔ سوچتا ہو ں اگر یہ ہسپتال نہ ہوتا تو جانے امیر حمزہ کا کیا بنتا!
ہم غریبوں کے پاس تو دعاو¿ں کے سوا کچھ نہیں اور وہ ہم ہر وقت جناب عمران خان اور اس ہسپتال کے تمام عملے کے لئے کر رہے ہیں .
(احمد نور۔ کوئٹہ)