میں شاعرِ آخر الزماں ہوں اے جوش!

Feb 26, 2025

ملک کاشف اعوان


بریدہ سَر… ملک کاشف اعوان
me.malik@hotmail.co.uk

  127 برس قبل پیدا ہونے والی اس ہشت پہلو شخصیت کا مرکب کچھ عجب تضاد سے خلق ہوا تھا۔ وہ شاعر تھا اور شاعر بھی بے مثل و بے نظیر… اور ہوتا بھی کیوں نہ کہ ابّا، دادا و پَردادا سبھی صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ یہی وہ جامِ سخن تھا جو چھلکا تو محص نو برس کی عمر میں ہی اس کے قلم نے لکھا
          شاعری کیوں نہ راس آئے مجھے
          یہ مرا… فنِ خاندانی ہے!
 شاعری مگر اس شہرِ سخن کے شہریار کو راس نہ آئی۔ یوں پون صدی گ?لشنِ س?خن کی آبیاری کے بعد غزل، نظم، قصیدہ، منقبت و مرثیہ کے اس قدآور شاعر کو کہنا پڑا:   ''آخر یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اس قوم میں کسی صاحبِ قلم کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور ہرادیب و شاعر کو چاہئیے کہ وہ خود کشی فرما لے۔''  (یادوں کی بارات  صفحہ 283)  جی ہاں! یہ اردو کے عظیم شاعر اور صاحبِ طرز نثر نگار جوش ملیح آبادی کا قصّہ ہے۔ وہ جوش کہ جنہیں شاعرِ انقلاب و شاعرِ شباب بھی کہتے ہیں اور یادوں کی بارات کا س?رخیل بھی۔ وہی جوش کہ جنہوں نے انیس و دبیر کی مرثیہ گوئی کو ایک نئی جہت عطا کی تھی اور جدید مرثیہ نگاری کی خشتِ اوّل رکھی تھی۔ آج بائیس (22) فروری کو اسی شاعرِ انقلاب حضرت جوش ملیح آبادی کی تینتالیسویں (43) برسی ہے۔جوش ملیح آبادی کا اصل نام نواب شبیر حسن خان تھا اور وہ 5 دسمبر 1898 کو ملیح آباد، اتر پردیش، ہندوستان میں آفریدی پٹھانوں کے  علم دوست ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نواب بشیر احمد خان، دادا نواب محمد احمد خان و پَردادا نواب فقیر محمد خان بھی فارسی اور اردو کے کہنہ مشق و صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ ان کے خاندان میں خواتین شاعرات بھی موجو د تھیں۔ جوش کی دادی بیگم نواب محمد احمد خان مرزا غالب کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جوش کو علم و ادب کا ذوق اور شاعری سے رغبت ورثے میں ملی تھی۔ جوش نے اس وقت کے دستور کے مطابق ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ عربی کی تعلیم ''امراؤ جان ادا'' کے خالق مرزا ہادی رسوا سے جبکہ فارسی و اردو کی تعلیم مولانا قدرت اللہ بیگ ملیح آبادی سے حاصل کی۔ انہوں نے 1914  میں آگرہ سینٹ پیٹرز کالج سے سینئر کیمرج کا امتحان پاس کیا۔ جوش نے نو برس کی عمر میں پہلا شعر کہا۔ ابتدا میں عزیز لکھنوی سے اصلاحِ سخن لی پھر یہ سلسلہ منقطع ہو گیا اور خود اپنی طبیعت اور وجدان کو رہنما بنایا۔جوش کی شخصیت مجموعہ اضداد و کمالات تھی۔ شاعری میں اوجِ کمال تو نثر کا کماحقہ ادراک، فلمی دنیا میں الگ شان تو صحافت میں منفرد اڑان، مترجم و مدیر و مسئول، غزل و نظم و مرثیہ، باگیشری و دَادرا و ٹھمری، غرضیکہ ہر پہلو منفرد اور ہر جہت تابناک۔ یہ دھوپ چھاؤں سی طبیعت کا اعجاز تھا کہ جوش کہیں بھی ٹک کر رہ نہ سکے۔ انہوں نے اپنی طبیعت کی فراوانی کے طفیل ہر اس جگہ طبع آزمائی کی جہاں ان کا مزاج موزوں ہوا مگر ہر اس جگہ سے نکالے گئے جہاں انہوں نے ٹھہرنا ضروری جانا۔ کارَن بس یہی کہ بلا کے ضدی اور منہ پھٹ تھے۔ جو منہ میں آیا کہہ دیا، جو جی میں آیا سنا دیا۔   جوش نے 1925  میں جامعہ عثمانیہ کے دارالترجمہ سے بطور مترجم اڑان بھری۔ جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن براہِ راست نظام حیدرآباد کی عملداری میں تھی۔ جوشنے اسی نظام حیدرآباد کے خلاف نظم لکھ ماری۔ نتیجتاً نوکری سے برخواست کر دئیے گئے۔ دہلی سے ایک ادبی رسالہ ''کلیم'' شائع کیا لیکن مالی مشکلات کے سبب بہت دنوں تک جاری نہیں رہ سکا اور بند ہو گیا۔ اس دوران جوش نے فلمی دنیا میں قدم رکھا اور 1943ء  سے 1948ء  کے درمیان متعدد فلموں کے لیے گانے اور مکالمات لکھے مگر نچلا بیٹھنا انہیں نہیں آتا تھا۔ یوں اختلافات کے سبب یہاں سے بھی رخصت لی۔  تقسیم کے بعد جوش نے بھارت میں ہی رکنا مناسب خیال کیا کہ وہ تقسیمِ ہند کے مخالف تھے۔ بھارتی وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو ان کے بہت بڑے پرستار اور سرپرست تھے۔ نہرو نے شاید ہی کبھی جوش کا کوئی مشاعرہ چھوڑا ہو۔ نہرو کی سرکردگی میں بھارتیہ سرکار نے سرپرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرکاری رسالے ''آج کل'' کا مدیر لگا دیا مگر وہی ازلی ہجر نشیں طبیعت کہ جلد ہی یہاں سے بھی گئے۔ بھارتی سرکار کی طرف سے طبیعت رنجور ہو گئی۔ اگرچہ کہ سرکاری سطح پر انہیں 1954  میں پدمابھوشن اعزاز بھی عطا کیا گیا مگر ان کا دل ہندوستان سے بھر چکا تھا۔ جواہر لال نہرو نے انہیں روکنے کی بہت کوشش کی مگر ازل سے من موجی طبیعت کے مالک جوش نے بھارتی شہریت ترک کر کے 1955ء  میں پاکستان کو ہجرت کی۔ پاکستان آ کر جوش انجمن ترقئی اردو اور پاکستان ترقی اردو بورڈ سے وابستہ ہوئے۔ جوش نہ صرف اردو میں یدِّ طولیٰ تھے بلکہ عربی، فارسی، ہندی اورانگریزی پربھی دسترس رکھتے تھے۔ اپنی انہیں خداداد لسّانی صلاحیتوں کے باعث انہوں نے قومی اردو لغت کی ترتیب و تالیف میں بھرپورعلمی معاونت کی۔ ایک بار تو لگا جیسے جوش کو اپنی منزل مل گئی ہے مگر اختلافات کے طفیل یہاں سے بھی جلد ہی نکال دئیے گئے۔ اب کے جوش نے انجمن چھوڑنے کے ساتھ ساتھ کراچی کو بھی خیر باد کہہ دیا۔ جوش ملیح آبادی کی شہرہ آفاق خود نوشت ''یادوں کی برات'' ایک ایسی کتاب ہے جس کی اشاعت کے بعد پاک و ہند کے تمام ادبی، سیاسی و سماجی حلقوں میں ایک بھرپور بھونچال آیا تھا۔ یہ ایک ایسی کتاب تھی جسے پڑھ کر بہت لوگ تلملائے تھے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ جوش کو اپنی اس خود نوشت کی وجہ سے منفرد نوعیت کی شہرت حاصل ہوئی تھی کیونکہ اس میں بہت ہی متنازع باتیں کہی گئی تھیں۔ یادوں کی برات کی اشاعت 1972 میں کراچی سے ہوئی تھی جبکہ جوش کا انتقال 22 فروری 1982  کو ہوا۔ گویا ایک طرح سے وہ پورا  عشرہ مختلف نوعیت کی علمی و ادبی تنازعات میں گھرے رہے اور اسی کے باعث انہیں بے حد دشواریوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔نیچے بیٹھنا جوش کی فطرت میں ہی نہیں تھا۔ اخیر عمری میں بھی وہ حکومتِ وقت کے عتاب کا شکار ہوئے اور اپنا وظیفہ بھی بند کروایا۔ ستّر کی دہائی کے اواخر میں حاکمِ وقت کے خلاف ایک متنازع انٹرویو کی وجہ سے انہیں ذرائع ابلاغ میں 'بلیک لسٹ' کر دیا گیا مگر کچھ عرصہ کے بعد ان کی مراعات بہرحال بحال کردی گئیں۔
  جوش کو اردو ادب میں ''شاعرِ انقلاب'' اور ''شاعرِ شباب'' کے القابات ملے۔ ان کے کلام میں انقلابی فکر اور جوانی کی امنگوں کی بھرپور عکاسی ملتی ہے۔ ان کی نظمیں ''حسین اور انقلاب''، ''فکر و نشاط''، اور ''آوارہ گرد کی دعا'' اس بات کی غماز ہیں کہ وہ کس طرح سماج کے جمود کو توڑنے کے خواہاں تھے۔ ان کی شاعری نے تحریکِ آزادء ہند کو ایک نیا جوش و ولولہ بخشا۔ ان کے اشعار میں سیاسی شعور، قوم پرستی، اور انسان دوستی کا پیغام نمایاں تھا۔ وہ صرف شاعر نہیں، بلکہ ایک مفکر اور مصلح بھی تھے۔ ان کا کلام نوجوان نسل کو بیدار کرتا، ان کے دلوں میں انقلاب کی آگ بھڑکاتا، اور انہیں جدوجہد کے لیے آمادہ کرتا تھا۔ جوش کو اقبال کے بعد ا ردو نظم کا دوسرا سب سے بڑا شاعر جبکہ انیس و دبیر کے بعد تیسرا سب سے بڑا مرثیہ نگار تسلیم کیا جاتا ہے۔ جوش ملیح آبادی ایک کثیر التصانیف شاعر، نثر نگار، گیت نگار و عظیم ترین مرثیہ گو ہیں۔ ان کی تصانیف کے نثری مجموعوں میں 'یادوں کی برات'، 'مقالاتِ جوش'، 'مقالاتِ زرّیں'، 'نویداتِ جوش'، 'عرفانیاتِ جوش'، 'اوراقِ سحر'، 'ارشادات' جبکہ شعری مجموعوں میں 'روحِ ادب'، 'شاعر کی راتیں'، 'نقش و نگار'، 'شعلہ و شبنم'، 'فکر و نشاط'، 'جنون و حکمت'، 'حرف و حکایت'، 'آیات و نغمات'، 'عرش و فرش'، 'رامش و رنگ'، 'سنبل و سلاسل'، 'سیف و سبو'، 'سرود و سروش'، 'سموم و صبا'، 'طلوعِ فکر'، 'الہام و افکار'، 'موحد و مفکر'، 'قطرہ و قلزم'، 'نجوم و جواہر' شامل ہیں۔ جوش کے لکھے ہوئے چند شہرہ آفاق گیتوں 'اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں (آگ کا دریا)'، 'من جا من جا بالم من جا (آگ کا دریا)'، 'ہوا سے موتی برس رہے ہیں (آگ کا دریا)'، 'قسم اس وقت کی جب زندگی کروٹ بدلتی ہے (قسم اس وقت کی)' ، 'نظر ملا کر چلے گئے ہیں (چاند سورج)' کو لازوال شہرت ملی۔ جوش  ملیح آبادی کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے 2013ء  میں سب سے بڑے قومی اعزاز ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا۔ آج ہی کے دن لفظوں کے بے تاج بادشاہ، مصرعوں کے جادوگر، زبان و بیان کے کوزہ گر، شعلہ مزاج ترقّی پسند شاعر، قادرالکلام مرثیہ گو، بادشاہِ محاکات، شاعرِ اعظم، اردو کے مارلو، شاعرِ شباب و شاعرِ انقلاب نے اسلام آباد میں 84 سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا تھا۔ جوش اسلام آباد کے ایچ ایٹ قبرستان میں آسود? خاک ہیں۔ آج بھی ان کی ت?ربت کے قرب و جوار سے دھیمی دھیمی صدا سنائی دیتی ہے ''میں شاعرِآخرالزماں ہوں اے جوش''

مزیدخبریں