بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک
انسانی حقوق سے متعلق کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی حکمران جماعت نے ہندو انتہا پسندوں کو اقلیتوں پر حملہ کرنے اور انہیں ہراساں کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ بھارت کی سرکاری پالیسیاں اور اقدامات اقلیتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ بھارت نے مسلمانوں کو منظم طور پر امتیازی سلوک کا نشانہ بنانے والی پالیسیاں بنائیں۔ بھارتی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، پولیس، عدلیہ اور خود مختار اداروں میں مداخلت کر رہی ہے۔ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نئی دلی میں 23 فروری 2020ء کے فسادات میں ہلاک 52 افراد میں سے 40 مسلمان تھے۔دلی فسادات بھڑکانے میں بی جے پی لیڈرز اور پولیس حکام پر الزامات ہیں۔ بھارتی حکام نے جان بوجھ کر دلی فسادات کی معتبر، غیر جانبدارانہ تحقیقات نہیں کیں۔ بھارت نے فسادات کی تحقیقات کے بجائے کارکنان اور احتجاجی منتظمین کو نشانہ بنایا۔ اب بھی بھارتی حکام کسان احتجاج میں شامل اقلیتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں کسان مظاہروں میں شریک افراد کو طفیلیے قرار دیا ہے، نریندر مودی نے کسانوں کے معاملے پر عالمی تنقید کو ایک تباہ کن نظریہ قرار دیتے ہوئے اسے براراست بھارت کے اندورنی معاملات میں کھلی مداخلت قرار دیا ہے۔ بھارتی حکومت مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کو حملوں سے بچانے میں ناکام رہی ہے۔ بھارتی حکومت اقلیتوں پر حملہ کرنے والوں کی سیاسی سرپرستی بھی کر رہی ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہندو اکثریت کی کثیر تعداد کو سرکاری اداروں میں بھرتی کر لیا ہے۔ بھارتی حکمران جماعت کے اس اقدام سے مساویانہ حقوق کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ جبکہ اس روش کی بنا پر بھارت میں ماہرین تعلیم، دیگر ناقدین کو نشانہ بنانے کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ غیر جانبدار حلقوں کی طرف سے اقلیتوں، کمزوروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کو بھی ہراساں کیا جا رہا ہے۔بھارتی حکومت آئینی اور قانونی طور پر ملک میں بسنے والی اقلیتوں کے تحفظ کی پابند ہے۔ لیکن مودی حکومت میں قانون سازیوں میں اقلیتوں سے امتیازی سلوک کو جائز قرار دیا گیا ہے۔۔بھارتی انتہا پسند جماعتوں بی جے پی اور آر ایس ایس کا ریکارڈ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے بھرا پڑا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک، تشدد اور قتل جیسے واقعات کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ سمیت کئی عالمی تنظیمیں تشویش کا اظہار کر چکی ہیں۔بھارت میں لاکھوں افراد کو بھوک اور مصائب میں پھنسانے والی مودی سرکار اپنی ناکام پالیسیوں کو چھپانے کے لیے نت نئے سماجی اور مذہبی مسائل پیدا کررہی ہے۔ نریندر مودی کے دوسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد بھارت میں موجود اقلیتوں پر تشدد، دھمکانا، ان کو ہراساں کرنا اور ہجوم کے تشدد میں بہت اضافہ ہوا ہے اور یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ ہندو مذہبی انتہا پسندوں کو مودی سرکار کی حمایت حاصل ہے۔مسلمان تو ایک طرف، صرف ایک گائے کو جواز بناکر دلت اوردیگر اقلیتوں کو زدوکوب کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ انہیں جان سے مار دیا جاتا ہے۔ ہندو غنڈوں کا ہجوم اکٹھا ہو کر اقلیتی افراد کو مارتا ہے اور ان کو جے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کرتا ہے۔ خواتین اور بچوں پر جنسی حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ مذہبی عدم رواداری، منافرت اور انتہا پسندی کے بعد یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت بھارت میں اقلیتوں سے زیادہ گائے محفوظ ہے۔ یہ اس ملک کی منظر نگاری ہے، جو کبھی سیکولر ملک ہونے پر ناز کرتا تھا، جبکہ اب یہ ایک متعصب ریاست کا روپ دھار چکی ہے، جہاں اقلیتوںپر عرصہ حیات تنگ کیا جاچکا ہے۔ بھارتی حکمراں جماعت نے اقتدار میں آنے کے بعد بابری مسجد پر بھی قبضہ کیا۔ بابری مسجد کے سلسلے میں مسلمانوں کو انصاف فراہم نہیں کیا گیا۔ بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں کو آئے روز جبر و ستم یا تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوتوا یا اکھنڈ ہندو مملکت کی علمبردار مودی حکومت کی شہ پر اقلیتوں کو کورونا وائرس کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے ہندو اکثریتی علاقوں سے مار مار کر نکالا جارہا ہے۔ انھیں سبزی، پھل اور کھانے پینے کی دوسری اشیا خریدنے نہیں دی جارہی ہیں اور مسلمان مریضوں کو سرکاری اسپتالوں میں علاج کی سہولت دینے سے انکار کیا جارہا ہے۔ بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی اور اس سے منسلک ہندو انتہا پسند تنظیمیں بھارت میں نفرت کی دیواریں تعمیر کررہی ہیں۔ بھارت کی تعمیر و ترقی میں مسلمانوں کی کوششوں اور کاوشوں کو دنیا کی کوئی طاقت نظر انداز نہیں کرسکتی۔ بھارتی مسلمان بڑے صبر و تحمل کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ حالانکہ ان سے ان کی ترقی اور پیشرفت کے اسباب کو سلب کرنے کی تلاش کی جاری ہے۔ بھارتی حکومت کو اپنے رویہ میں تبدیلی پیدا کرنی چاہیے ،ورنہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔بھارت میں بی جے پی کے پہلے اقتدار سے ہی معاشرے میں نفرت اور مذہبی منافرت پھیلائی جارہی ہے۔گزشتہ برسوںکی طرح اس برس بھی اونچی ذات کے ہندوؤں کی جانب سے ہندوؤں کی نچلی ذاتوں، مسیحوں اور مسلمانوں کے خلاف تعصب اور بدسلوکی کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔ مسلمان بھارت میں سب سے بڑی اقلیت ہیں جو تقسیم ہند سے قبل ہندوستان میں سینکڑوں برس حکمران بھی رہے۔تاہم تقسیم ہند کے بعد سے بھارت میں مسلمانوں کو تعصب کا سامنا رہا اور بھارت کے بانی رہنماوں سب سے معروف موہن داس کرم چند گاندھی کو ہی 1948 میں ہندو مسلم اتحاد کی حمایت کرنے پر ایک ہندو انتہا پسند نتھورام گوڈسے نے قتل کردیا تھا۔ہندو مسلم اتحاد کی حمایت کرنے پر ہندو انتہا پسندوں کی اکثریت مہاتما گاندھی کو بھی ’’غدار‘‘ قرار دیتی ہے۔ حالانکہ وہ خود بھی ایک کٹر پسند ہندو رہنما تھے، اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے گاندھی کے قاتل گوڈسے کو ہیرو قراردیا جارہا ہے۔